ہم جانتے ہیں کہ تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے اور تحفوں کے تبادلے سے تعلق مضبوط ہو جاتا ہے تحفہ قیمتی ہو تو تعلق اور زیادہ مضبوط ساتھ ہی اگر تحفہ ہماری ضروریات کے مطابق ہو تو ہمارے رشتے میں نئی جان پڑ جاتی ہے تحفہ لینا اور دینا ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے بچوں کو یہ چار تحفے دینے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمارا تعلق اپنے بچوں سے نہ صرف بہت گہرا اور مضبوط ہو جائے گا بلکہ ان کی شخصیت میں نکھار انا شروع ہو جائے گا کیونکہ یہ تحفے بہت قیمتی ہیں۔
پہلا تحفہ ایک دوسرے سے محبت
کہتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد جو سب سے قیمتی تحفہ دے سکتے ہیں ، وہ ایک دوسرے سے محبت ہے میاں بیوی کا ایک دوسرے سے اپس میں محبت کرنا اپنی اولاد کے لیے انمول خزانہ ہوتا ہے والدین کو ایک دوسرے سے محبت کا برتاؤ کرتا دیکھ کر بچوں کا خون اور اعتماد بڑھ جاتا ہے اپ نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ مثالی خاندان کون سے ہیں۔ یقینا یہ وہ خاندان ہوں گے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کے ساتھ رہتے ہیں جی ممکن ہے کہ مالدار اور مشہور خاندان مثالی نہ ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ محبت بھرا گھرانا مثالی نہ ہو۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں نفرت ہوتی ہے صرف میاں بیوی میں ہی نہیں، بچوں میں بھی ، جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں، ان کے دلوں میں خوف بڑھتا ہے اور اگے چل کر یہ خوف نفرت غصہ یا اثر میں تبدیل ہو جاتا ہے اگر شوہر اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ نہ کرتا ہو تو بچے باپ سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ باپ ان کا ائیڈیل نہیں رہتا اس طرح وہ مائیں جو شکوہ شکایت اور برائیاں کرتی رہتی ہیں ان کے بچے عظیم انسان صفت سے محروم ہو کر سطحی زندگی سے گزرتے ہیں ۔ وہ محبت نہیں نفرت کرنا سکھاتے ہیں بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ محبت کیسے قائم ہو محبت کی مثال ایک پھل دار درد لگانے کے مانند ہے یعنی بیچ ہونے کے بعد انتظار کیا جاتا ہے پھر دیکھ بھال ہوتی ہے پھر کونپل پھوٹتی ہے ، پھر اس کی حفاظت کی جاتی ہے پھر پودا اہستہ اہستہ بڑھنے لگتا ہے۔
اس دوران اپ اس سے پھل طلب نہیں کرتے اسے تناوہ درخت میں تبدیل ہونے میں مدد کرتے ہیں ایک وقت اتا ہے کہ وہ اب اپ کی محبت اور محبت کا صلہ دینے کے قابل ہو جاتا ہے یہ صلہ کوئی معمولی نہیں ہوتا برسوں پھل دیتا ہے نسل مستفید ہوتی ہے محبت ایسی ہے اج ہم نے قربانی دینی ہے چھوڑ دی ہے مردوں نے بھی عورتوں نے بھی جسے عقل آجائے وہ قربانی دینا شروع کر دے بے وقوف لوگ قربانی نہیں دیتے وہ قربانی مانگتے ہیں یہی سے جڑیں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
دوسرا تحفہ وقت دیں
وقت اللہ کی عظیم ترین نعمت ہے بچوں کو اپ کے تحفے کی نہیں اپ کی موجودگی اور وقت کی زیادہ ضرورت ہے۔
کون سا وقت ؟
کوالٹی ٹائم ۔
اگر اپ چڑ چڑاہٹ کا شکار ہیں اپ کو غصہ اتا ہے غیبت کرنے کے عادی ہیں لڑتے جھگڑتے ہیں سستی کاہلی کا شکار ہیں تو بچوں کو بالکل وقت نہ دیں کیونکہ یہ کوالٹی ٹائم نہیں ہے۔ جیسے جیسے اپ بچے کو وقت دینا شروع کریں گے اپ کی اس سے قربت بڑھنا شروع ہو جائے گی یہ چیز بچے کے لیے بہت قیمتی ہے بچوں کو وقت نہ دینے کا ایک عام بہانہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ ایک اسکول کا پرنسپل میرے دوست ہیں ان کے پاس جانا ہوا جو انہوں نے ٹائم دیا تھا اس ٹائم سے تاخیر سے پہنچا تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا اسکول صبح سات بج کر 45 منٹ پر لگتا ہے اور ایک بچی روزانہ 10 منٹ تاخیر سے اتی تھی ۔ جب یہ بات پرنسپل تک پہنچی تو انہوں نے بچی کی والدہ کو بلایا اور کہا کہ یہ اسکول کے نظم و ضب کے خلاف ہے۔ اپ کسی بھی طرح اپنی بیٹی کو وقت پر اسکول لائیں۔ اس بچے کی والدہ کہنے لگی کہ مجھے اپنی بڑی بیٹی کو دوسرے سکول میں چھوڑ کر انا ہوتا ہے میں جلدی ائی نہیں سکتی اس لیے مجھے دس منٹ کی مہلت دی جائے۔ پرنسپل نے کہا کہ موسم کی تبدیلی کے باعث اگلے ہفتے سے اسکول اٹھ بجے لگے گا۔ تب اپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ وہ خوش ہو گئی اور کہنے لگی پھر تو میں پانچ منٹ پہلے ہی آجایا کروں گی۔ اگلے ہفتے سے وہ اٹھ بج کردس منٹ پر آنے لگیں ۔
یہ مزاج بن گیا ہے ہم اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے غلط اندازے لگاتے ہیں بچوں کو وقت دیں وقت نہیں ہے تو کہیں سے بھی بچائیں لیکن بچوں کو وقت دیں موبائل اور ٹی وی سے وقت لیا جا سکتا ہے کام جلدی مکمل کر کے جلدی روانہ ہو کر وقت دیا جا سکتا ہے ۔ شام یا رات میں نہیں دے پاتے تو صبح سویرے بھی وقت دینے کے بہت اچھے اور صحت بخش طریقے کار نکال سکتے ہیں جس بچے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میرے ماں باپ میری باتیں سنیں گے ، میرے مسائل میں دلچسپی لیں گے ان کے اعتماد میں اضافہ ہونے لگے گا وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کریں گے اور یہ احساس بہت طاقتور ہوتا ہے
تیسرا تحفہ کتابیں دیں
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ہمیں صحت مند زندگی گزارنی ہے تو ورزش کرنی ضروری ہے اس کے بغیر اپ طاقتور اور چاک و چوبن نہیں رہ سکتے اس موضوع پر ہم مختلف کالم میں تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں۔
جس طرح صحت مند جسم کے لیے ورزش ضروری ہے اسی طرح طاقتور اور صحت مند دماغ کے لیے کتابیں پڑھنا بہت ضروری ہے۔
کتابیں نہ پڑھ کر اپ اپنا بہت بڑا نقصان کرتے ہیں اس وقت دنیا پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں کیا فرق ہے اپ کو سب سے نمایاں فرق یہ نظر ائے گا کہ جن ممالک میں جتنی زیادہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں ان ممالک میں اتنی زیادہ ترقی اور خوشحالی ہے جہاں کتابیں زیادہ پڑھی جاتی ہیں وہ معاش تعلیم اور صحت ہر میدان میں نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں ۔ اس بات کا یہ مطلب ہے کہ اگر اپ نے اپنے بچوں کو کتابوں کا تحفہ دینا شروع کیا تو کیا ان کے لیے بہت قیمتی تحفہ ہوگا۔
عظیم مفکر والٹئر کہتا ہے کہ تاریک انسانی میں اور ویشی نسلوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کتابوں نے حکمرانی کی ہے جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں بھرپور زندگی گزارتے ہیں اج بھی دیکھ لیں جہاں بھی خوش حالی نظر ائے گی وہاں کتاب نظر ائیں گی۔
دنیا میں بہت پریشانیاں ہیں بہت دکھ ہیں لیکن اپ اپنے دکھوں کو کم کر سکتے ہیں ۔ اچھی کتابیں پڑھ کر لہذا بچے کو اس کے مزاج اور عمر کے مطابق کتابوں کا تحفہ دیں اور اسے پر اعتماد اور عظیم انسان بننے کا موقع فراہم کیجئے۔
بچہ اپ کی توجہ اور محبت اور حوصلہ افزائی کے باعث کتابیں پڑھنے کا عادی ہو جائے گا ۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپ کتابیں پڑھنے کے لیے ایک وقت مقرر کریں جس میں ان کے ساتھ خاموشی سے کتابوں کا مطالعہ کریں اور یہ وقت رات کو سونے سے پہلے ہو تو بہت ہی اچھی بات ہے کتابوں کی اہمیت کے موضوع پر یادداشت بمقام ذہانت میں تفصیل سے بات کی گئی ہے ۔
چوتھا تحفہ خود اعتمادی
چوتھا تحفہ جو اپ اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں وہ ہے خود اعتمادی۔ خود اعتمادی تمام بند دروازوں کو کھولتی اور مشکلات کو حل کرتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے اجتماعی اور انفرادی مسائل جو ہمیں تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں درپیش ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ اعتماد کی کمی ہے ۔ جیسے جیسے اعتماد بڑھنا شروع ہو جاتا ہے زندگی میں سکون انے لگتا ہے اور غصہ کم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ اپ چست ہو جاتے ہیں اور اپ کی کارکردگی بہتر ہونے لگتی ہے اگر اپ نے اپنے بچے میں اعتماد پیدا کر دیا تو باقی کامیابی اور خود سمیٹتا چلا جائے گا ۔ اپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کامیاب اور اطمینان حاصل کرنے والے لوگ پر اعتماد ہوتے ہیں اس کے برعکس جن لوگوں میں خود اعتمادی نہیں ہوتی وہ منفی جذبات میں مبتلا رہتے ہیں
بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے تین طریقے تو وہ ہیں جو تین تحفوں کی صورت میں اپ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ساتھ ہی ان میں نظم و ضبط پیدا کر کے ان کی جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کر کے ان کی ذہانت میں اضافہ کر کے اور ان میں تجسّس کے چھپے ہوئے شوق کو بیدار کر کے کر سکتے ہیں۔ یہ پورا کالم صرف ذہانت یادداشت اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں لکھا گیا ہے ، اگر اپ نے اس کالم کے تمام ابواب کا مطالعہ کیا ہے تو اپ یقیناً اندازہ کر چکے ہوں گے یہ کالم بچوں اور بڑوں کی پوری شخصیت کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔
ان تحفوں سے شروعات کر کے بھی اپ اپنے بچوں میں بہت ساری خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں