1971 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے مشرقی پاکستان کے محاذ پر جرأت اور بہادری کی ان گنت داستانیں رقم کیں انہیں میں سے ایک داستان لیفٹیننٹ سالار بیگ کی ہے جن کا تعلق ہنزہ تھا۔
لیفٹیننٹ سالار بیگ نے جیسور کے مقام پر تن تنہا جوانمردی سے دشمن کیخلاف لڑائی لڑی اور جنگ کے آغاز سے لے کر جنگ کے 25 ویں روز تک بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے، جنگ کے آغاز میں لیفٹیننٹ سالار بیگ ٹروپ لیڈر تھے جن کے ٹینک کو بھارت کی جانب سے فائر کیا گیا گولہ لگا۔
اور اس حملے کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ بھی شدید زخمی ہو گئی لیکن اس کے باوجود اس باہمت نوجوان نے لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پوزیشن نہیں چھوڑی، جیسور کے اس معرکے دوران پاکستان آرمی کے انڈیپنڈنٹ آرمرڈ سکواڈرن کے 22 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
شہداء کی کثیر تعداد بھی سکواڈرن کے حوصلے پست نہ کر سکی اور بھارتی فوج کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے نہ صر ان کے 6 ٹینک تباہ کئے بلکہ سکواڈرن کمانڈر میجر ڈی ایس نارانگ کو بھی جہنم واصل کیا۔
سالار بیگ کو زخمی آنکھ کی وجہ سے واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا مگر انہوں نے واپسی سے انکار کیا اور اپنے زیر کمان دو ٹینکوں کے ذریعے جنگی فرائض سر انجام دیتے رہے۔
15دسمبر کو بھارت کی دو کمپنیوں نے ٹی 55 ٹینکوں کے ساتھ لیفٹیننٹ سالار بیگ کی پوزیشن پر حملہ کیا جس کے جواب میں انہوں نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاس دستیاب آخری راؤنڈز استعمال کرتے ہوئے ایک ٹی 55 ٹینک کو نشانہ بنایا جس کے بعد باقی ٹینک بھاگ گئے۔
لیفٹیننٹ سالار بیگ زیر کمان دو ٹینکوں کے ساتھ دشمن کیخلاف نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ دشمن فوج کو بھاری نقصان بھی پہنچایا تاہم، بھارت نے لانگ رینج ٹینکوں سے ان کے دو ٹینکوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ سالار بیگ بھی شہید ہوگئے۔
لیفٹیننٹ سالار بیگ 21 نومبر1971 کے بعد 25 دن تک دشمن بھارت کیلئے درد سر بنے رہے اور ان کی بہادری کے باعث دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
لیفٹیننٹ سالار بیگ کی بہادری کی یہ داستان پاکستانی قوم کی آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے۔