کراچی کو عروس البلاد کہا جاتا ہے، روشنیوں سے جگمگاتے، آبادترین شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کی را تیں بھی دن معلوم ہوتی ہیں، اور کیونکر نہ ہوں؟ اربوں، کھربوں کے پروجیکٹس شہر کی تعمیروترقی پر یوں ہی توشروع کر کے ختم نہیں کردیئے جاتے، انکا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ شہرِ قائد کا اگربامقصد اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں صرف اور صرف روشنیاں ہی نہیں اندھیرے بھی ہیں، سُنسانیت بھی ہے اورسنّاٹے بھی!! اب نئی کراچی کی" سناٹا پّٹی" کو ہی دیکھ لیجئے، یہ پٹی کب تک سناٹے میں رہے گی کچھ خبر نہیں، پچھلے دنوں اسی سناٹا پٹی پر ایک خاتون گولی لگنے سے جاں بحق ہو گئیں (اللہ انہیں اپنے جوارِ حمت میں جگہ عطا فرمائے)۔ اس واقع کی (عام) تفصیلات یہ ہیں کہ دو عدد ڈاکو سناٹا پٹی پر راہگیروں کو لوٹ رہے تھے، پھر ایک(متاثرہ) راہ گیر نے لٹیروں کی موجودگی کی اطلاع پولیس کو دے دی، پھر پولیس وہاں پہنچی، فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اور اُسی تبادلے میں گولی اُن خاتون کو بھی لگ گئی جو موٹر سائیکل پر اپنے شوہر اور بچے کے ہمراہ گھر واپس لوٹ رہی تھیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ خاتون کو لگنے والی گولی ڈاکوؤں کی ہے، جبکہ خاتون کے شوہر نے اُس گولی کو پولیس کی گولی قرار دیا تھا، تو بہرحال پھر دو پولیس والوں کو گرفتار اور مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔ایک ڈاکو کو بھی پولیس نے پکڑ لیا تھا۔
یہ واقعہ تو رونما ہوگیا، خاص بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں، بے گناہ عوام کا ان واقعات میں جان سے جانامعمول کی بات بنتی جارہی ہے، عوام ڈاکوؤں کی گولی سے تو مرتے ہی ہیں، ڈاکوؤں کے لیے چلی گولی بھی انہیں قبرستان پہنچا دیتی ہے۔لٹیروں کی راہگیروں کو لوُٹنے کی حکمتِ عملی اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ پولیس کی حکمتِ عملی ایسی صورتحال میں کیا ہونی چاہیئے؟ سڑکوں، بازاروں، گلی محلوں میں چلتے، پھرتے لوگوں کی موجودگی میں پولیس ڈاکوؤں سے کیسے نمٹے، کیا اس اہم ترین معاملے پر پولیس کو ٹریننگ دی جارہی ہے؟اگر دی جارہی ہے تو اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے؟۔ ۔ ۔ کسی بے گناہ کو گولی لگ جانا عام بات نہیں! کسی کا گھراُجڑ جانا عام بات نہیں! بچوں کا یتیم، مسکین ہوجانا عام بات نہیں! ایک انسان کا خونِ ناحق ساری انسانیت کا قتل ہے!!
اس واقعے کا دوسرا پہلو بھی اہم ہے، اور وہ یہ کہ خاتون کا انتقال گولی لگتے ہی نہیں ہوگیا تھا، وہ زندہ تھیں، پھر انہیں سب سے پہلے قریبی اسپتال لایا گیا، جہاں سے انہیں عباسی شہید اسپتال بھیج دیا گیا، پھر عباسی شہید اسپتال سے انہیں جناح اسپتا ل بھیج دیا گیا،جہاں ڈاکٹروں نے خاتون کو فوت شدہ قرار دے دیا۔ ۔ ۔اب بات یہ ہے کہ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ جان سے جاتے کسی گولی لگے شخص کو فوری طور پر علاج معالجہ مہیا ہوجائے تو اُس کے بچنے کی امید زندہ رہتی ہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ انتہائی تشویشناک حالت میں موجود زخمی شخص کی ایک سے دوسرے، اور دوسرے سے تیسرے اسپتال میں منتقلی کا سلسہ کیوں چل نکلتا ہے؟ اور پھر اگر موت کی ایک وجہ یہ منتقلی کا عمل بھی ٹھہرے تو پھر کیا ہوتا ہے، یہ بھی نہیں معلوم ۔ ۔ ۔ لہٰذا ان تمام معاملات سے جان پہچان ضروری ہے تاکہ ایسے موضوعات پر بھی " بات" ہوسکے، مسائل کا حل نکل سکے، اسپتالوں سے جڑُے معاملات بھی ٹھیک ہوسکیں اوربالآخر انسانی جانیں بچائی جاسکیں۔