سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر ہنگامی بنیادوں پر سماعت کی۔ جبکہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئےآج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا، جس پر الیکشن کمیشن نےآج ہی شیڈول جاری کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔
حکم نامے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست بظاہر قابل سماعت نہیں تھی،لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غیرضروری جلد بازی کا مظاہرہ کیا، لاہور ہائیکورٹ کو آر اوز ڈی آر اوز سےمتعلق درخواست پر مزید کارروائی سے روکتے ہوئے کیس ریکارڈ سپریم کورٹ بھیجنے کا حکم دیدیا۔
یہ بھی پڑھیں :۔لاہور ہائیکورٹ نے بیوروکریسی سے آراوز ،ڈی آر اوز لینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا
حکم کے مطابق وکیل ای سی پی نےکہاہائیکورٹ کا حکم برقراررہاتوانتخابی عمل ممکن نہ ہوگا،لاہورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے چار نوٹیفکیشنز معطل کیے، لاہور ہائیکورٹ کےجج نےدائرہ اختیار سے باہر جا کر آرڈر پاس کیا،کسی مخصوص ریٹرننگ افسرکیخلاف شکایت کا الگ فارم موجود تھا،کسی ریٹرننگ افسرکیخلاف الیکشن کمیشن کو شکایت دی جاسکتی ٹھی۔
سپریم کورٹ نے تحریری حکم میں کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی سے تعلق بتاتا ہےجس کی درخواست پرالیکشن تاریخ آئی،بتایا گیا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی دور میں ایڈوکیٹ جنرل رہ چکا ہے، لہٰذاپی ٹی آئی کےدرخواست گزارعمیرخان نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔عمیر نیازی بتائیں کیوں نہ اُنکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
سماعت کے آغازپر چیف جسٹس قاضی فائز نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اتنی کیا جلدی ہوگئی ؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو 8 فروری کو الیکشن کرانے ہیں، سجیل سواتی نے جواب میں کہا کہ کوشش ہے کہ الیکشن کروا دیں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں آپ نے کرانے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ لا ہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے؟ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں، اورلاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہائی کورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائی کورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔ جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں۔
سماعت کے دوران جسٹس سردارطارق مسعود نے سوال کیا کہ اگرآراوزانتظامیہ سےلینےکاقانون کالعدم ہوتوکیاکبھی الیکشن نہیں ہوسکےگا؟چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی،ان سے سوال کیا گیا کہ کیاریٹرننگ افسر جانبدار ہوتوالیکشن کمیشن سےرجوع کیاجاسکتاہے؟ جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا ہزارسےزائدافسرایک عمیرنیازی کیخلاف جانبدارکیسےہوسکتےہیں؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نےمعاملہ لارجربینچ کوبھیجاتوساتھ آرڈرکیسےجاری کرسکتاہے؟کیا لاہور ہائیکورٹ میں لارجر بینچ بن گیا ؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ جی لارجر بینچ بن گیا ہے،لاہور ہائیکورٹ میں بنچ کا سربراہ کون ہے؟سجیل سواتی نے کہا کہ وہی جج سربراہ ہیں جنہوں نے پہلے سماعت کی ، جس پر چیف جسٹس نے وکیل کے جواب پرحیرت کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا کسی سیاسی جماعت کے آر او لگا رہے تھے؟جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ کیالاہورہائیکورٹ نےپورےملک میں آرآوزکوروک دیا؟جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےلوگوں کی تعیناتی توچیلنج بھی نہیں ہوئی،چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کہتےہیں آپ یاایگزیکٹو الیکشن نہ کروائیں،تواسکامطلب ہےالیکشن نہ ہوں۔آپ نےتوسارےڈی سیزکولگایاتھا،کوئی پک اینڈچوزتونہیں کیاتھا؟یہ عمیر نیازی کون ہے؟نیازی نام سے کیا یہ رشتہ دار ہے کسی کا ؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیاچیف جسٹس کےپاس پارٹی کی کوئی اتھارٹی تھی؟وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عمیرنیازی نےذاتی حیثیت میں لاہورہائیکورٹ سےرجوع کیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا فیصلہ واضح تھا،کہ الیکشن میں تاخیر کی کوئی کوشش نہیں کرے گا،پاکستان تحریک انصاف تو ہمارے سامنے درخواست گزار تھی،کیا عمیر نیازی نے الیکشن کمیشن کو پہلے کوئی درخواست دی ؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی،سپریم کورٹ آتے وہ سیدھے ہائی کورٹ چلے گئے؟
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ 7 دن کی ٹریننگ تھی،ایک دن ہوئی پھر نوٹیفیکیشن معطل کردیاگیا، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ہائیکورٹ نےٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا،عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ سجیل سواتی نے کہا کہ آج الیکشن شیڈیول جاری ہونا تھا، چیف جسٹس نےسوال کیا کہ کیا اٹارنی جنرل کا مؤقف سنا گیا تھا؟
یہ بھی پڑھیں :۔الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز اور آر اوز کی تربیت روک دی
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت کیلئےنوٹس تھالیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئےتھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکرہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوئی آئینی عہدہ نہیں،جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےسماعت سےقبل مجھ سےہدایات لی تھیں، چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا اٹارنی جنرل کو بائی پاس کیا گیا؟اٹارنی جنرل منصوراعوان نے استفسارکیا کہ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وہاں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن شیڈول کب آنا تھا،وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے جواب میں کہا کہ افسران کوالیکشن کمیشن نےحکم دیناہوتاہے، الیکشن شیڈول آج آنا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک انصاف کی خاتون وکیل کی روسٹرم پربیٹھنےپرسرزنش کردی ، چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پیچھےبیٹھ جائیں،ہم حکم نامہ لکھوا رہے ہیں آپ کیوں کھڑی ہوگئیں؟
اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ پہنچنے پر سیکریٹری الیکشن کمیشن سے سوال کیا گیا کہ آٹھ فروری کو الیکشن کے لیے تیار ہیں، سیکریٹری ای سی پی نے کہا جی انشاءاللہ ہم تیار ہیں۔
سیکریٹری ای سی پی سے دوسرا سوال کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں ؟سیکریٹری ای سی پی نے کہا جی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں ۔