مونس الٰہی کیخلاف منی لانڈرنگ مقدمہ کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیل پر ایف آئی اے سے کیس کا ریکارڈ طلب کر لیا گیا۔
سپریم کورٹ میں مونس الٰہی کیخلاف منی لانڈرنگ مقدمہ کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی،دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاملزمان پر جعلی اکائونٹنس کےذریعے منی لانڈرنگ کا الزام ہے،جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریماکس میں کہا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بہت تفصیلی ہے،نیب سمیت کئی ادارے ان اکاؤنٹس کی تحقیقات کر چکے۔
جسٹس طارق مسعود نےاستفسارکرتےہوئےکہا ایک ہی معاملےکی بار بار تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟جس پرڈپٹی اٹارنی جنرل نےکہا نیب آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کررہا تھا،جسٹس سردارطارق نے استفسار کیاجن اکاؤنٹس کی تحقیقات کر رہےہیں وہ کب کے ہیں؟جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کچھ اکاؤنٹنس 2007ء اور کچھ 2010 سے 2014 کے درمیان بنے۔
جسٹس سردارطارق نے ریماکس دئیےنیب نے 2020ءمیں تحقیقات ختم کیں،احتساب عدالت نے توثیق کی،کیسے ممکن ہے کہ نیب نے اس معاملے کا جائزہ ہی نہ لیا ہو؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نےکہا شوگر کمیشن کی رپورٹ سے منی لانڈرنگ کا معاملہ سامنے آیا،جسٹس عائشہ ملک نےریماکس دئیےشوگر کمیشن تو چینی کی قیمت کے حوالے سے تھا،جس رحیم یارخان مل کا کیس بنا رہے ہیں اس کی تو کمیشن نے تحقیقات کی ہی نہیں،ابھی تک ایف آئی اے واضح نہیں کرسکا کہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی؟
جسٹس طارق مسعود نے ریماکس دئیے اینٹی منی لانڈرنگ قانون 2010ء میں بنا، اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا؟ آپ کے بقول مقدمےکی بنیاد ہی 2007ء کا اکائونٹ ہے،پہلے نیب کے ریفرنس کی تفصیلات اور ریکارڈ پیش کریں،پھر فیصلہ کریں گے کہ مونس الٰہی کو نوٹس جاری کرنا ہے یا نہیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مقدمہ ختم کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریماکس دئیے ہائیکورٹ کو مقدمہ پہلی سماعت پر ہی ختم کرنے کا اختیار ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔