سپریم کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سماعت کو جنوری تک ملتوی کر دیا گیا جبکہ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے۔
ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کی معاونت کے لیے 9 معاونین بھی مقرر کردیے گئے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر گیارہ سال سے زائد عرصہ بعد سماعت ہو ئی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس یحیحیٰ آفریدی، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس حسن علی رضوی پر مشتمل 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس پر سماعت کی۔
ریفرنس پر سماعت کی عدالتی کارروائی میڈیا پر لائیو نشر بھی کی گئی ہے۔
🚨LIVE broadcast of the ZA Bhutto reference#SupremeCourt is hearing the 11-year-old reference on revisiting the #deathsentence awarded to former prime minister #ZulfikarAliBhutto in 1978.#PPP leaders, including #BilawalBhuttoZardari, #AsifZardari, and #SherryRehman, have also… pic.twitter.com/WsoI9TvlRu
— SAMAA TV (@SAMAATV) December 12, 2023
چیف جسٹس کی بنیچ کی تشکیل پر وضاحت
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے بنیچ کی تشکیل پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ براہ راست کارروائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، صدراتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں لیا گیا، ایک سئینر ممبر بنیچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے، دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذرت کی اس کے بعد نو رکنی بنیچ تشکیل دیا گیا۔
بلاول کی فریق بننے کی درخواست
سماعت کے دوران پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی فریق بننے کی درخواست دی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے کے ناطے انصاف کیلئے درخواست کی، ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا، ان کا قتل نظام انصاف پر دھبہ ہے۔
چیف جسٹس کا اظہار افسوس
چیف جسٹس کی جانب سے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا گیا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا ؟، جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ ریفرنس سابق صدر آصف زرداری نے بھیجا تھا۔
یہ بھی پڑھیں۔ بھٹو ریفرنس کی سماعت، آصف زرداری اور بلاول سپریم کورٹ پہنچ گئے
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔
Supreme Court hears Zulfikar Ali Bhutto reference.
— SAMAA TV (@SAMAATV) December 12, 2023
AGP Mansoor Usman Awan is at the forefront, representing the federal government in the reference, while Farooq H Naek steps up to represent the #PPP chief.#SamaaTV #SupremeCourt pic.twitter.com/OnsXVlAt6F
ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوال
جسٹس منصور شاہ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں جس پر انہوں نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھے اور ریفرنس میں آصف زرداری کیس 2001 کا بھی حوالہ دیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھیں۔
نسیم حسن شاہ کے انٹرويو کا حوالہ
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے نسیم حسن شاہ کے انٹرويو کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ انٹرویو کس کو دیا گیا تھا؟، جس پر پیپلز پارٹی کے وکیل اور رہنما فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یہ انٹرویو افتخار احمد کو دیا گیا، دو انٹرویوز کا ذکر کیا گیا ہے دوسرا انٹرویو کس انجان کو دیا گیا، دوسرے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کہا کہ مارشل لاء والوں کی بات ماننا پڑتی ہے۔
احمد رضا قصوری
دوران سماعت احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بھی نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ریفرنس پر اُٹھائے گئے قانونی نکات بھی پڑھے جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر پاکستان کے ریفرنس میں اس وقت نمائندگی کس نے کی تھی ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت بابر اعوان نے نمائندگی کی تھی، چیف جسٹس نے ان کی عدالت میں موجودگی بارے استفسار کیا جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بابر اعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہو گیا تھا ، وہ اس وقت کی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے۔
ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا تھا، احمد رضا قصوری
احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایاگیا تھا، بابر اعوان اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متفرق درخواست کے ساتھ اور بھی چیزیں آئی تھیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے معروف قانون دان علی احمد کرد سے استفسار کیا کہ کیا آپ معاونت کریں گے ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
مخدوم علی خان اور اعتزاز احسن کے معاونین وکلاء پیش
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران مخدوم علی خان اور اعتزاز احسن کے معاونین وکلاء بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے موقف اختیار کیا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کیس میں ہیں یا نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ عدالتی معاون تھے ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اعتزازاحسن اس کیس میں آئیں گے ؟ جس پر ان کے معاون نے بتایا کہ اعتزازاحسن وکیل بھی ہیں بطور معاون نہیں آئیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قاضی اشرف بھی اس کیس میں معاون تھے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ قاضی اشرف تندرست ہیں اور پریکٹس کر رہے ہیں۔
کیس کا اصل ریکارڈ ملا ؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا تھا جبکہ فاروق نایئک نے بتایا کہ ریکارڈ میں تین بنڈل آئے تھے۔
فاروق نائیک نے بتایا کہ کیس میں جو شکایت دائر ہوئی تھی اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا، عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا جس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں،
جسٹس منصور شاہ نے استفسا کیا کہ کیا جب یہ سارا کیس چلا ملک میں آئین موجود تھا جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اُس وقت ملک میں مارشل لاء تھا۔
ٹریبونل نے مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا
فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا، اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں، ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے، ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیئے جائیں۔
جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ شفیع الرحمان ٹریبونل رپورٹ کو پبلک کیا تھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پھانسی کا فیصلہ سپریم کورٹ سے برقرار رہا، نظرثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی، اٹارنی جنرل آپ ہمیں اب اس ریفرنس کے قابل سماعت ہونے ہر مطمئن کریں، آپ ہمیں بتائیں آرٹیکل 186 کے تحت قانونی سوال کیا ہے، جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے۔
ہم اس معاملے کو دوبارہ کیسے کھولیں
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ قانونی نقطہ کیا ہے ہم اس معاملے کو دوبارہ کیسے کھولیں، یہ آسان معاملہ نہیں ہے ایسے تو ہمارے مقدمات میں ہی صدر ریفرنس بھیجنے لگیں گے جبکہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم نے تو صرف ریفرنس پر رائے دینی ہے۔
حکمنامہ
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا کہ ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں، جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک ، خواجہ حارث ، خالد جاوید خان اور سلمان صفدر کو عدالتی معاون بنا لیتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کسی کو ان معاونین پر اعتراض ہے؟ ، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ انہیں رضا ربانی کو عدالتی معاون بنانے پر اعتراض ہے کیونکہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صلاح الدین،زاہد ابراہیم اور فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ورثا اگر اپنا وکیل مقرر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور انہوں نے استفسار کیا کہ ریفرنس پر آئندہ سماعت کب رکھیں ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ سردیوں کی چھٹیوں کے بعد کی تاریخ رکھیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس بار کی چھٹیوں کے بعد ہی رکھیں نا ، آخری سماعت کب ہوئی تھی ؟، یہ کیس گیارہ سال بعد مقرر کیوں ہوا ؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’’ یہ جواب آپ نے دینا ہے ‘‘۔
احمد رضا قصوری کی استدعا
احمد رضا قصوری کی جانب سے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی اور کہا گیا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئیں، اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے، اب یہ ریفرنس دیر آئے درست آئے پر ہے، جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔
علی احمد کرد
معروف قانون دان علی احمد کرد نے کہا کہ کئی عدالتی معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، کیا عدالت ان کے لیے افسوس کا اظہار نہیں کرے گی؟ جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ یہ کیس بھی سنجیدگی کا متقاضی ہے، اسے سنجیدگی سے دیکھنے دیں، آپ نے کوئی بیان دینا ہے تو میڈیا پر جا کر دیں۔
بھٹو کے ورثا وکیل کر سکتے ہیں
چیف جسٹس نے حکمنامے میں لکھوایا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کر دیا گیا اور آخری بار ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا، فاروق ایچ نائیک نے بلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی اور بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، عدالت کو بتایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کے 8 پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھوایا کہ ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے، بلاول بھٹو کی جانب سے براہ راست نشریات کی بھی درخواست دائر کی گئی جو اب غیر موثر ہو چکی ہے۔
آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے
حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کھبی واپس لیا گیا ،انہوں نے بتایا کہ ریفرنس پہلے واپس لیا گیا نہ موجودہ صدر نے واپس لیا، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا ، ریفرنس میں مقرر کیے گئے معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، ایک معاون علی احمد کرد عدالت میں موجود ہیں، معاونت پر بھی رضا مندی لی، مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے بتایا ہے کہ وہ معاونت کے لیے تیار ہیں۔
حکنامے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے، کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے، معاملے کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی ماہرین کی رائے کیا ہوگی اس کے لئے جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں۔
حکمنامے کے مطابق خواجہ حارث بطور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں ان کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، سلمان صفدر ، رضا ربانی ، خالد جاوید ، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کرتے ہیں۔
ریفرنس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی
عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ ریفرنس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے، آئندہ سماعت سے ریفرنس روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا، عدالتی معاونین فوجداری اور آئینی معاملات پر رائے دیں، ریفرنس میں ایک انٹرویو کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے جبکہ احمد رضا قصوری نے بھی نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے، فاروق ایچ نائیک نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا، فاروق ایچ نائیک اس انٹرویو کی ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کریں گے۔
The nine-member #bench has decided to adjourn proceedings until January, signaling a temporary pause in #legalproceedings. #SC was hearing the presidential reference for #ZAB's case after 11 years. #SamaaTV pic.twitter.com/Kr97qjpxXJ
— SAMAA TV (@SAMAATV) December 12, 2023
نجی ٹی وی نوٹس جاری
سپریم کورٹ کی جانب سے نسیم حسن شاہ کا انٹرویو فراہم کرنے کے لیے نجی ٹی وی چینل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا اور کہا گیا کہ آخری سماعت پر سپریم کورٹ بار اور عاصمہ جہانگیر کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا اب سپریم کورٹ بار بھی اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، یہاں کسی کا دفاع نہیں ہو رہا یہ ایک صدارتی ریفرنس ہے، جو بھی آنا چاہے ہم اسے سنیں گے۔
فاروق نائیک نے سلمان صفدر اور فیصل صدیقی کو عدالتی معاونین بنانے پر اعتراض کیا جس پر عدالت نے انہیں اعتراضات تحریری طور پر دائر کرنے کی ہدایت کی۔