پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضے اٹھہتر ہزار ارب روپے ہوگئے۔بیرونی قرضوں کی مالیت ایک سو چوبیس ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے سر36 ہزار 861 ارب کے بیرونی قرض سمیت مجموعی طور پر 78 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔صرف ایک سال میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں 12 ہزار 276 ارب کا اضافہ ہوگیا۔ حکومت کے ذمے براہ راست قرضے 50 ہزار 206 ارب سے بڑھ کر 62 ہزار 482 ارب ہوگئے۔ ۔ اقتصادی ماہرین 78 فیصد قرضوں کی شرح کو پاکستان کے لیے ناقابل برداشت قرار دیتے ہیں۔
سابق وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں پر اگر آپ فوکس کریں اس وقت تقریبا 124 ارب ڈالر ہے۔ اب ہم یہ کہاں سے لے کر آئیں گے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے تین سال میں ہماری بیرونی فنانسنگ کی ضروریات جو ہیں 63 ارب ڈالر ہیں۔ ہمیں بطور قوم سوچنا چاہئے کہ یہ جو اتنی امپورٹس کر رہے ہیں کیا یہ پائیدار ہیں۔
گزشتہ مالی سال ساڑھے5 ہزار ارب سے زائد قرضوں پر سود دیاگیا۔ رواں مالی سال کے پہلے 3 ماہ میں ہی یہ بل 1380 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اقتصادی ماہرین کی نظر میں سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ ہی ملک کو اس گھن چکر سے نکال سکتا ہے۔
سابق چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف کا کنا ہے کہ یہ سرکل اس لیئے ہے کہ پاکستان کا خیال ہے کہ اپنی جیو پولیٹکل لیوریج کی وجہ سے انٹرنیشنل اداروں سے اور باقیوں سے قرضے لیتا رہے گا۔ دوطرفہ ممالک سے بھی قرضہ لیا جائے گا لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قرضہ واپس بھی کرنا ہے ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ 200 سال میں اکنامک تھیوری نہیں بدلی کہ دو ہی طریقے ہیں یا تو سرمایہ کاری سے یا پھر برآمدات چار گنا بڑھائی جائیں۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو درپیش بلند مالی خسارے کی بڑی وجہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہےجو 22سال کی بلند سطح 7.9 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ وفاقی
حکومت کی 80 فیصد آمدن قرضوں پر سود، سبسڈیز، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ مختلف شعبوں کی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز کا خاتمہ کرکے 9 ہزار ارب روپے اضافی ریونیو جمع کیا جاسکتا ہے۔