گزشتہ دو انتخابات سے کراچی میں سیاسی جماعتیں اپنی قسمت آزمانے کے ساتھ ساتھ کراچی کو اپنا قلعہ بنانے میں سیاسی اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی آئندہ الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان اور ن لیگ کا سیاسی اتحاد ہو گیا ہے۔کراچی میں زیادہ نشستوں کے لئے دیگر جماعتیں پیپلزپارٹی ،استحکامِ پاکستان پارٹی ،پی ٹی آئی ،تحریک لبیک اور جماعت اسلامی بھی کیا کسی اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ کے بارے میں کوئی سوچ وبچار کر رہے ہونگے؟
سنہ 1988اور1990 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی نے کلین سوئپ کیا مگر اس کے بعد 1993اور 1997 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو انتخابی نتائج اپنی مرضی سے کرنے والی جماعت کا بھی ٹائٹل ملتا رہا۔2002 اور 2008 کے جنرل الیکشن میں ایم کیو ایم نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔ ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم حکمران اتحاد کا حصہ ضرور رہا مگر 2013اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کے ووٹرز کا رجحان اپنی طرف کر لیا جس کی بنیادی وجہ ایم کیو ایم کی تقسیم بنی۔ ایم کیو ایم لیاری اور ملیر سے کبھی کامیاب نہیں ہوئی جبکہ 2018 الیکشن میں پیپلزپارٹی کا بھی بڑا اپ سیٹ لیاری اور ملیر کی نشستوں پر ناکامی تھی۔ لیاری سے بلاول بھٹو کی ہار نے پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر سیاسی طور پر متحرک کیا ہے۔دوسری طرف ایم کیو ایم’ نائن زیرو‘ کی نشست پی ٹی آئی سے ہار گئی تھی۔
مذہبی جماعت تحریک لبیک نے کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ن لیگ کو پنجاب کی 13 نشستوں پر نقصان پہنچایا تھا۔آئندہ انتخابات کے پیش نظر کراچی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور سیاسی گٹھ جوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
کراچی سےپی ٹی آئی کے 4سابق ایم این اے محمود مولوی،علی زیدی ،آفتاب صدیقی اور اکرم چیمہ جبکہ گورنر عمران اسماعیل نے اپنی سیاسی وابستگی ختم کر کے استحکام ِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔ سابق ایم این اے مزمل قریشی ،سابق ایم این اے خواجہ سہیل منصور احمداور سابق ایم این اے منوہر لال پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ہیں ۔
انتخابی نتائج کےمطابق وہ حلقے جہاں ایم کیو ایم اور ن لیگ کےاتحاد سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا
این اے 236 ملیر 1 کراچی کا پہلا انتخابی حلقہ ہے یہاں پیپلزپارٹی کے امیدوار جام عبد الکریم 66ہزار 641ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے امیدوار مسرور علی 26ہزار 487 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔مسلم لیگ ن کے قادر بخش9845 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ اگر بات کریں اس حلقے میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کی تو دیوان چند چاولہ نے 363 ووٹ لئے اور پی ایس پی کے اشفاق احمد اشتیاق نے 44ووٹ لئے تھے۔اس حلقے میں مسلم لیگ ن تیسرے نمبر جبکہ ایم کیو ایم ساتویں نمبر پر تھی۔گزشتہ انتخابات کے نتائج کے مطابق اگر مسلم لیگ ن ،ایم کیوا یم اور پی ایس پی کے امیدواروں کے ووٹ جمع کیا جائیں تو 10ہزار 252ووٹ بنتے ہیں جو کہ کامیاب امیدوار کے ووٹوں سے 56 ہزار ووٹ کم ہیں ۔
دوسرا حلقہ این اے 237 یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار جمیل احمد خان 33ہزار 522ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی کے عبد الحکیم بلوچ 32ہزار 054ووٹ لے سکے۔ن کے زین العابدین انصاری 14ہزار230،ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر ندیم مقبول14ہزار 264ووٹ اور پی ایس پی کےامیدوار آفاق جمال 1ہزار 455ووٹ لے سکے۔حالیہ اتحاد کو مد نظر رکھتےہوئے اگر مسلم لیگ ن ،ایم کیوا یم اور پی ایس پی کے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو 29ہزار949ووٹ بنتے ہیں جو کہ کامیاب امیدوار کے ووٹوں سے 3ہزار573 کم ہیں۔آئندہ انتخاب میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کا حمایت یافتہ امیدواراوردوسری جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہو سکتا ہے۔
این اے 238ملیر کے اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے سید رفیع اللہ 29ہزار 606ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، انکے مد مقابل پی آر ایچ پی کے حافظ اورنگزیب 19ہزار 463ووٹ حاصل کر سکے۔پی ٹی آئی کے زبیر رحمان 16ہزار506،ن لیگ کے سید شاہ محمد شاہ14ہزار038،ایم کیو ایم کے 6ہزار802 اور پی ایس پی کے راو محمد زبیر 797ووٹ حاصل کر سکے۔ن لیگ اور ایم کیو ایم کے ووٹ 21ہزار 637 بنتےہیں جو کہ کامیاب امیدوار سے 7ہزار 969 کم ہیں ۔
این اے 239 کراچی کورنگی کا پہلا حلقہ ہے ۔اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار محمد اکرم چیمہ 69ہزار161ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انکے مد مقابل ایم کیو ایم کے سہیل منصور خواجہ نے 68ہزار811ووٹ لے کر رنر اپ رہے۔ن لیگ کے محمد احسان 19ہزار617ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے ۔اس حلقے میں مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم کے حمایت یافتہ امیدوار کے کامیاب ہونے کے امکانات ہو سکتے تھے ۔حال ہی میں ایم کیو ایم کے سہیل منصور خواجہ ایم کیو ایم کیو خیر باد کہہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔قومی اسمبلی کی اس نشست پر بھی پیپلزپارٹی کی کامیابی ممکن ہے۔
این اے 240کورنگی کے دوسرے حلقے سے ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی خان 61ہزار165ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔یہاں دلچسپ بات ہے کہ دوسرے نمبر پر تحریک لبیک پاکستان کے محمد آصف 30ہزار353ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ تیسرے نمبر پر تحریک انصاف کے فروخ منظور 29ہزار 941ووٹ حاصل کر سکے۔اس حلقہ میں مسلم لیگ ن نے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔
این اے 241ضلع کورنگی کا تیسرا حلقہ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار فہیم خان 26ہزار714ووٹ لے کر کامیاب رہے انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار محمد معین امیر پیرزادہ کو شکست دی جنہوں نے 23ہزار873ووٹ حاصل کئے تھے۔اس حلقے میں تیسرے نمبر پر تحریک لبیک کے طاہر اقبال19ہزار185ووٹ حاصل کر سکے ۔ ن لیگ کے طالب زر خان 16ہزار892اور پی ایس پی کے محمد دانش 5ہزار168ووٹ لے سکے۔حالیہ اتحاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایم کیو ایم ، ن لیگ اور پی ایس پی کے ووٹ جمع کئے جائیں تو 45ہزار933ووٹ بنتے ہیں جو کہ آئندہ انتخاب میں ایک مضبوط پوزیشن کا عندیہ دیتا ہے۔اس سب صورتحال میں تحریک لبیک کے امیدوار طاہر اقبال کے 19ہزار185 ووٹ جبکہ پیپلزپارٹی کے معظم علی قریشی کے 9ہزار370ووٹ نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔
این اے 242کراچی ضلع شرقی کا پہلا حلقہ سے تحریک انصاف کے سیف الرحمان 27ہزار502ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انکےمد مقابل پیپلزپارٹی کے محمد اقبال11ہزاووٹ لے کر رنر اپ قرار پائے۔ ایم کیو ایم کی کشور زہرا6ہزار393ووٹ جبکہ ن لیگ شرافت خان 7ہزار 060ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ مسلم لیگ ن،پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے کل ووٹ15ہزار022بنتے ہیں جو کہ کامیاب امیدوار سے 12ہزار480ووٹوں سے پھر بھی کم ہیں۔
این اے 243شرقی کے دوسرے حلقے سے تحریک انصاف کے چئیرمین سابق وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی 91ہزار373ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انکے مد مقابل ایم کیو ایم پاکستان کے سید علی رضاعابدی 24ہزار082ووٹ لے کر زنر اپ قرار پائے۔پیپلزپارٹی کی امیدوار سیدہ شہلا رضا 10ہزار633ووٹ ،ن لیگ کے شاہجہاں 7ہزار912ووٹ جبکہ پی ایس پی کے امیدوار3ہزار 641ووٹ حاصل کر سکے۔مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان گروپ کے ووٹ جمع کئے جائیں تو کل 35ہزار635 جو کہ کامیاب امیدوار کے مقابلے میں55ہزار738 پھر بھی کم ہیں۔
این اے 244شرقی کا تیسرا حلقہ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار علی حیدر زیدی 69ہزار480ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انہوں نے مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو شکست دی جنہوں نے 31ہزار247ووٹ حاصل کئے تھے۔اس حلقے میں ایم کیو ایم کے عبد الروف صدیقی نے 19ہزار527ووٹ ،ایم ایم اے کے زاہد سعید نے17ہزار894 جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار نے14ہزار746ووٹ حاصل کئے تھے۔
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو 50ہزار774 اور اگر اس میں ایم ایم اے کے ووٹ بھی شامل کر لئے جائیں تو 68ہزار668ووٹ بنتے ہیں سب ووٹو ں کے بعد اس حلقے میں ن لیگ اور ایم کیوا یم اپنے امیدوار کو کامیاب نہیں کرو ا سکتی ہے ۔یاد رہے علی حیدر زیدی پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر آئی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ مفتاع اسماعیل نے بھی ن لیگ سے راہیں جدا کر لیں ہیں۔آئندہ انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے امیدوا ر کون ہونگے اس سے بھی حلقے کے انتخابی نتائج میں فرق ہو سکتا ہے۔
این اے 245ضلع شرقی کا آخری حلقہ 2018کے انتخابات میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے عامر لیاقت حسین 56ہزار673ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار فارق ستار کو شکست دی جنہوں نے 35ہزار429ووٹ حاصل کئے تھے۔یاد رہے ا س حلقے میں بھی تحریک لبیک کے امیدوار احمد رضا امجدی نے20ہزار737ووٹ حاصل کئے تھے۔ایم ایم اے نے 20ہزار143، مسلم لیگ ن9ہزار682 جبکہ پی ایس پی کے امیدوار نے 6ہزار222ووٹ حاصل کئے تھے۔ن لیگ ،ایم کیو ایم گروپ کے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو 45ہزار733ووٹ بنتے ہیں ۔
این اے 246ضلع جنوبی کا پہلا حلقہ 2018 کے انتخابات میں یہاں سے تحریک انصاف کے عبد الشکور شاد 53ہزار029ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔یہاں سے دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرادی 39ہزار 347ووٹ لے سکےتھے۔ایم ایم اے کے مولانا نور الحق قادری33ہزار220ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ن لیگ کے سلیم ضیاء19ہزار137، ایم کیو ایم کےمحفوظ یار خان 9ہزار53 جبکہ پی ایس پی کےاعجاز احمد3ہزار284 ووٹ لے سکے۔نقطہ یہ ہے کہ ن لیگ ،ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ووٹ جمع کریں تو 32 ہزار274ووٹ بنتے ہیں جو کہ کامیاب امیدوار سے20ہزار755 کم ووٹوں کے مارجن کو نشاندہی کر تا ہے۔
این اے 247 یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے صدر پاکستان عارف علوی اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار مد مقابل تھے ۔تحریک انصاف عارف علوی 90ہزار907ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انکے مد مقابل تحریک لبیک کے امیدوار سید فرمان علی جعفری 24ہزار722 ووٹ لے کر رنر اپ رہے۔ڈاکٹر فاروق ستار 24ہزار323ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ ایم ایم اے کے محمد حسین 23ہزار020،پیپلزپارٹی عبد العزیز میمن 19ہزار578،مسلم لیگ ن عرفان اللہ خان 18ہزار158اور پی ایس پی کی امیدوار فوزیہ قصوری 5ہزار432ووٹ لے سکیں۔
یاد رہے فوزیہ قصوری تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی 17سال صدر کے عہدے پر فائز رہیں ۔عام انتخابات 2018سے چند ماہ پہلے انہوں نے پی ٹی آئی سے اپنی سیاسی وابستگی ختم کر دی تھیں۔جون 2018 میں مصطفیٰ کمال کی پارٹی پاک سر زمین پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔یہ حلقہ ماضی میں ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اگر اس حلقے میں ن لیگ ،پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کو اکٹھا کیا جائے تو کل 47913ووٹ بنتے ہیں جوکہ عارف علوی کے ووٹوں سے پھر بھی 42ہزار994 کم ہیں۔اس حلقے میں سب سے زیادہ 23انتخابی امیدوار مد مقابل تھے ۔
این اے 248 کراچی غربی کا پہلا حلقہ یہاں سے پیپلزپارٹی کے عبد القادر پٹیل 35ہزار076ووٹ لے کر کامیاب رہے انہوں نے پی ٹی آئی کے سردار عزیز کو 746ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ ایم کیو ایم نے اس حلقے میں کسی بھی امیدوار کو انتخابی ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا جبکہ ن لیگ کے امیدوار محمد سلمان خان 20ہزار741ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔حیران کن بات یہ تھی کہ اس حلقے میں تحریک لبیک کے امیدوار اصغر محمود 13ہزار797ووٹ لے سکے، ہو سکتا ہے انہیں ایم کیو ایم کے ناراض ووٹرز نے بھی ووٹ کاسٹ کیا ہو۔
این اے 249 ایک اہم حلقہ جہاں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے فیصل ووڈا مد مقابل تھے ۔فیصل ووڈا 35ہزار349ووٹ لے کر کامیاب رہے انہوں نے شہباز شریف کے 723ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔حیران کن تحریک لبیک کا امیدوار مفتی عابد حسین 23ہزار981ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ایم کیو ایم کے اسلم شاہ 13ہزار534،ایم ایم اے کے سید عطا اللہ شاہ10ہزار307،پیپلزپارٹی کے قادر خان مندوخیل 7ہزار236 جبکہ پی ایس پی کی فوزیہ حمید 1ہزار617ووٹ لے سکیں ۔یاد رہے کہ فوزیہ حمید ایم کیو ایم کی سابق رکن قومی اسمبلی تھیں جنہوں نے 29مارچ 2018کو مصفطی ٰ کمال کی پارٹی پاک سر زمین میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ایم کیو ایم ،ن لیگ اور پی ایس پی کے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو 37ہزار597ووٹ بنتے ہیں ۔اس حلقے میں آئندہ انتخاب میں ن لیگ اور ایم کیو ایم کے اتحاد کے بعد یہ سیٹ جیتی جا سکتی ہے۔دیکھنا یہ ہو گا پی ٹی آئی کا ووٹرز کیا فیصلہ کرتا ہے؟
این اے 250کراچی غربی کا تیسرا حلقہ یہاں سے تحریک انصاف کے عطا اللہ 36ہزار 060ووٹ لے کر کامیا ب ہوئے جبکہ حلقے میں ایم کیو ایم کے امیدوار فیاض قائم خانی 29ہزار385ووٹ حاصل کر سکے تھے۔پیپلزپارٹی کے علی احمد 24ہزار692 جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان ایم ایم اے اتحاد کے ٹکٹ پر 22ہزار646ووٹ لے کر حلقے میں چوتھے نمبر پر تھے۔ ن لیگ نے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا جبکہ پی ایس پی کےا میدوار سید حافظ الدین 5ہزار558ووٹ لے سکے۔اس حلقے میں آئندہ انتخاب میں ن لیگ اور ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ امیدوار کو نشست مل سکتی ہے،ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے دونوں کے درمیان ہار جیت کا فیصلہ 6ہزار675ووٹوں سے ہوا۔
این اے 251 اس حلقے سے ایم کیو ایم کے سید امین الحق کامیاب ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار محمد اسلم کو 23ہزار425 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔اس حلقے سے بھی تحریک لبیک کے ممتاز انصاری 30ہزار525ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔پیپلزپارٹی کے جمیل ضیاء9ہزار616 اور ن لیگ کے فہد شفیق8ہزار160ووٹ لے سکے۔اس حلقے میں ایم کیو ایم اور ن لیگ کے ووٹ اکھٹے کئے جائیں تو 65ہزار 048 بنتے ہیں یہ حلقہ ایم کیو ایم کا ہے۔
این اے 252 کراچی جنوبی کا آخری حلقہ ،یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار آفاتب جہانگیر 21ہزار065 لے کر میاب ہوئے انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو 4ہزار023ووٹوں کے مارجن سے شکست دی ۔تحریک لبیک اس حلقے میں بھی تیسرے نمبر پر10ہزار 107ووٹ لے کر آئی جبکہ پی پی پی کے امیدوار عبد الخالق مرزا 9ہزار942،ن لیگ کے محمد ایوب خان 6ہزار495 اور پی ایس پی کےافتخار اکبر رندھاوا4ہزار786ووٹ حاصل کر سکے۔اس حلقے میں ن لیگ،ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا ووٹ جمع کیا جائے تو 29ہزار 223ووٹ جو کہ آئندہ انتخابات میں نشست حاصل کرنے میں اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔سوال وہی کہ تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اور تحریک لبیک کا ووٹرکا کیا فیصلہ کرتا ہے۔
این اے 253کراچی وسطی کا پہلا حلقہ2018کے انتخا ب میں اس ضلع کی چار نشستوں میں 2پر تحریک انصاف اور 2 پر ایم کیو ایم کامیاب ہوئی تھی۔اس حلقہ میں ایم کیو ایم کے اسامہ قادری کامیاب ہوئے انہوں نے تحریک انصاف کے محمد اشرف جبار کو 13 ہزار278ووٹوں سے شکست دی۔ حلقے میں تیسرے نمبر پر تحریک لبیک کے محمد امجد علی24ہزار749 ووٹ حاصل کر سکے۔ سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال پی ایس پی کے ٹکٹ پر 9ہزار357ووٹ لے سکے۔اس حلقے میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کثیر تعداد میں موجود ہے۔مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے اتحاد کے بعد متحدہ کا پوزیشن مزید مضبوط ہو سکتی ہے ۔
این اے 254 اس حلقےسے تحریک انصاف کے محمد اسلم کامیاب ہوئے انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار شیخ صلاح الدین کو 26ہزار 889ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔حلقے میں تحریک لبیک کے محمد عتیق28ہزار546لےکر تیسرے نمبر پر جبکہ ایم ایم اے کےراشد نسیم 26ہزار373ووٹ لے سکے۔ن لیگ نے کسی امیدوار کو انتخابی ٹکٹ نہیں دیا جبکہ پی ایس پی کے ارشاد عبد اللہ 9ہزار013ووٹ حاصل کر سکے۔ یہ حلقہ ایم کیو ایم کا گڑھ ’نائن زیرو‘ عزیز آباد ہے ۔
این اے 255 اس حلقے سے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کامیاب ہوئے ۔پی ٹی آئی کے رنر اپ امیدوار محمد باقی مولوی 9ہزار646ووٹوں کے مارجن سے شکست کھا گئے۔ اس حلقے میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک موجود ہے مگر یہاں پر بھی تحریک لبیک کا امیدوار محمد عدیل 21ہزار 476ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
این اے 256اس حلقے میں بھی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ دیکھنے میں آیا ۔پی ٹی آئی کے محمد نجیب ہارون 89ہزار857ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔ایم کیو ایم 45ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔اس حلقے میں ایم کیو ایم ،ن لیگ اور پی ایس پی کے امیدوار کے ووٹوں کو اکٹھا کریں تو 63ہزار826ووٹ بنتے ہیں ۔
ٹرن آوٹ کس حلقہ کا زیادہ کس کا حلقہ کم
کسی بھی حلقے میں ووٹرز کا اپنے پسندیدہ امیدوار وں کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ کے ذریعے انتخاب کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ٹرن آوٹ کو کے تناسب کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ وہ واحد ذریعہ ہے جس سے تمام سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات میں مقامی سطح پراپنے ووٹرز کومختلف طریقوں سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔2018کے انتخابات میں کراچی کی 21نشستوں میں سے صرف ایک نشست این اے 236سے سب سے زیادہ 50.40فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار جن حلقوں میں رنر اپ تھے ان حلقوں کے ٹرن آوٹ کی بات کریں تو21حلقوں میں سے صرف 7حلقوں پر ایم کیو ایم دوسرے نمبر تھی۔
ان حلقوں میں کراچی کورنگی کا حلقہ این اے 239 کا ٹرن آوٹ 42.41فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3ہزار تھی۔ محمد اکرم چیمہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کےسابق ایم این اے سہیل منصور خواجہ کے درمیان ہار اور جیت کا فیصلہ 350ووٹوں کے مارجن سے ہوا جبکہ اس حلقے میں مسترد ووٹوں کی تعداد 3ہزار281تھی۔این اے 241اس حلقے کا ٹرن آوٹ 36.28فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد2ہزار260 تھی۔ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان ہار اور جیت کا فیصلہ 2ہزار841ووٹوں کے مارجن سے ہوا تھا۔
این اے 245حلقے کا ٹرن آوٹ 37.62فیصد تھا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 2ہزار881فیصد تھی۔اس حلقے میں پی ٹی آئی کے عامر لیاقت اور ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ساتھ مد مقابل تھے یوں کہہ لیں ایم کیو ایم آمنے سامنے پھر بھی ووٹرز اتنی بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلا ۔این اے250 کراچی غربی کے حلقے کا ٹرن آوٹ 37.40فیصد تھا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد3ہزار136تھے۔تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے امیدوار کے درمیان ہار اور جیت کا فیصلہ 6ہزار675ووٹوں سے ہوا۔این اے 252غربی کا ٹرن آوٹ 39.61فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 2ہزار215 تھی ۔تحریک انصاف کا امیدوار آفتاب جہانگیر4ہزارو وٹوں کے مارجن سے کامیاب ہوئے تھے۔
این اے254اس حلقے کا ٹرن آوٹ 38.20فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 2ہزار834تھی ۔این اے 254کراچی وسطی حلقے کا ٹرن آوٹ 38.20فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد2ہزار834تھی ۔تحریک انصاف کے امیدوار نے بڑے مارجن 26ہزارووٹوں سے ایم کیو ایم کو شکست دی تھی جبکہ ٹی ایل پی کا امیدوار 28ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی جماعت کو ووٹ ایم کیو ایم کا تھا؟ این اے 256 کراچی کے آخری حلقے کا ٹرن آوٹ 41.25فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3ہزار118تھی اس حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار بہت بڑے مارجن 44ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوا۔
تحریک لبیک کا ووٹ نظر انداز نہیں ہو سکتا
آئندہ آنے والے انتخابات میں تحریک لبیک کے ووٹرز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔2018کے انتخابات میں کراچی کی 21قومی اسمبلی کی نشستوں پر 9نشستوں پر ٹی ایل پی کے امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئے۔این اے240لانڈھی اور کورنگی علاقہ سے ٹی ایل پی کے امیدوار محمد آصف رنر اپ انہوں نے 30سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ این اے 247کلفٹن ،آرام باغ اور صدر کے علاقوں سے تحریک لبیک کے امیدوار سید فرمان علی رنر اپ رہے۔این اے 246 گارڈن ایریا سے ٹی ایل پی کے احمد 42ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔
تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال کو کے مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنابے جا نہیں ہو گا کہ پی ٹی آئی کا ووٹرز آئندہ انتخاب میں شاید دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو جائے یا پھر پی ٹی آئی کا ووٹر انتخابات میں ووٹ ہی کاسٹ نہ کرے اس صورتحال میں حلقوں کا ٹرن آوٹ بھی کم ہو سکتا ہے۔پیپلزپارٹی کا کراچی میں مئیر اور ڈپٹی مئیر ایک مثبت پہلو ہے آئندہ انتخابات سے پہلے عوامی مسائل کو حل کر دیا جائے تو بھی پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔