اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کردیا۔
قومی احتساب بیور ( نیب ) کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی گئی جس پر عدالت عالیہ کی جانب سے اپیل کو خارج کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ احستاب عدالت نے نواز شریف کو ایوان فیلڈ ریفرنس میں دس سال سنائی تھی۔
بدھ کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیر اعظم نوازشریف کی اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران سابق وزیر اعظم لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلوں میں بے نامی ،اعانت جرم اور زیرکفالت سے متعلق تشریح کی ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے، معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
وکیل نے بتایا کہ 9 اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کیلئے تمام تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس کیس میں جرم ثابت کرنے کے لیے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، ظاہر کردہ آمدن کیساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اُن کی قیمت کیا تھی؟۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا ، بعد میں یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا،1993 سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں۔
وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو، پانامہ فیصلہ،جے آئی ٹی رپورٹ، نیب انوسٹی گیشن رپورٹ میں کچھ ثابت نہیں ہوا، واجد ضیا نے خود تسلیم کیا نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں، فرد جرم میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، زبانی نہ دستاویزی ثبوت ہےکہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہیں،استغاثہ کویہ ثابت کرنا تھا مریم نواز،حسن اورحسین میاں نواز شریف کی زیرکفالت تھے،بچوں کےنواز شریف کےزیر کفالت ہونےکا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں،ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے،بار ثبوت دفاع پرکبھی منتقل نہیں ہوتا،کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نوٹس لکھ رہے ہیں، یہ بہت اہم باتیں کر رہے ہیں، ؟، جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی ہم نوٹ کر رہے ہیں، جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے ہاتھ میں تو قلم ہی نہیں ہے۔