بڑھاپا اطمینان اور اس اعتماد کے ساتھ گزرتا ہے کہ ہم کسی پر کوئی نہیں کوئی بھی کار شے نہیں ہیں۔
یہ تصویر کا ایک اور انتہائی محدود رک ہے بچے اگر والدین کے فرمانبردار ہو تو اس کا بڑا فائدہ بچوں کو ہوتا ہے۔
وہ کیا فائدہ ہے یہی کچھ اہم جانیں گے ہم اس کالم میں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا تو میں نے خواب دیکھا کہ جنت میں وہیں میں نے کسی کے قران پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ اللہ کا بندہ کون ہے جو یہاں جنت میں قران پڑھ رہا ہے ؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حارث بن نعمان ہیں، ماں کی خدمت کا یہی صلہ ہے، ماں کی خدمت کا یہی صلہ ہے،۔پھر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارث بن نمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گزار اور اطاعت شعار تھے (شعب الایمان)۔
مذہب انسان کی زندگی مشکل بنانے کے لیے نہیں بلکہ اسان بنانے کے لیے اتا ہے اللہ کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس میں انسان کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد ہو ، دنیا میں نہ ہو ۔ ماں باپ کی خدمت کرنے کا فائدہ بھی ایسا ہی ہے۔ جو لوگ ماں باپ کے فرمانبردار کسی خوف معاشرے کی مجبوری یا معاشرتی دباؤ کے بجائے دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں ان کی زندگی ان لوگوں سے بے حد مختلف ہوتی ہے جو ماں باپ کے نافرمان ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی زندگی میں عموماً تلخی یا احساس محرومی نظر ائے گی اور یہ دونوں چیزیں ہی شخصیت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اللہ تعالی نے قران حکیم میں اپنے حقوق کے فورا بعد ماں باپ کی حقوق کی بات کی ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس بات میں بہت بڑی نشانی ہے اور جو کوئی اس اصول پر عمل کرتا ہے وہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچنے والے پر فرشتے بھی سلامتی بھیجتے ہیں اس لیے جو والدین بچوں کو اپنا احترام اور فرمانبردار سکھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ خود پر کم اپنی اولاد پر زیادہ احسان کرتے ہیں
ماں کی محبت
انسانی ذہن ماں کی محبت کی وسعت کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ یہ واحد محبت ہے جس سے موازنہ کر کے اللہ کی اپنے بندے سے محبت سمجھائی جاتی ہے کہ وہ ماں کے مقابلے میں ستر یا سو گنا زیادہ محبت کرتا ہے ۔ماں اپنی اولاد کی محبت میں اپنے ہوش کو بیٹھتی ہے ۔ایک مرتبہ امام قیس رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے کا انتقال ہو گیا جب اسے غسل دینے لگے تو وہ بیتابی سے کہنے لگیں، "اسے ٹھنڈے پانی سے مت نہ نہلانا، ورنہ یہ مر جائے گا "
خدا نے یہ صفت دنیا کی ہر عورت میں رکھی ہے کہ وہ پاگل بھی ہو جائے تو بچے یاد رہتے ہیں
یہ ما شیر نہیں حقیقت ہے اگر ہر عورت نہیں تو ایسی متعدد ماؤں کی مثالیں لیں جو پاگل ہونے کے بعد بھی اپنے بچوں کو پہچان لیتی ہیں ان سے پرانے وقتوں کی باتیں کرتی ہیں ۔
جانوروں کی اپنے بچوں سے محبت
انسان نہیں جانور اور پرندے بھی اپنی اولاد سے بے غرض محبت کرتے ہوئے نظر اتے ہیں۔ ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ اج صبح ایک گائے کا بچھڑا مر گیا تو گائے بری طرح رو رہی تھی ۔
ایک گائے یا کتا اپنے بچے کو کے لیے کیا کرتا ہے ؟
ان کو تحفظ دیتا ہے اور غذائی ضروریات پوری کرتا ہے اس دوران اگر کوئی بچہ مر جائے تو رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے ۔ ایک پرندہ بھی اپنے بچوں کی مادی ضروریات پوری کرتا ہے لیکن وہی منا سا معصوم پرندہ اگر سانپ یا کسی اور جانور کو اپنے گھونسلے کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے تو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر خود سے کئی گنا بڑی طاقت سے بھڑ جاتا ہے ۔ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کی اپنی جان بھی جا سکتی ہے ۔ جانوروں کا اپنی اولاد کے ساتھ مختصر تعلق ان کے درمیان بعض اوقات اٹوٹ رشتہ قائم کر دیتا ہے۔
انسانوں کی اپنے بچوں سے محبت
یہ تو معاملہ تھا جانوروں کا اب ہم بات کرتے ہیں ماں کی ایک انسانی ماں کی۔ وہ مسکراتی ہے جب بچہ مسکراتا ہے وہ ہستی ہے جب بچہ ہنستا ہے وہ روتی ہے جو بچہ تکلیف سے روتا ہے وہ کھیلتی ہے جب بچہ کھیلنا چاہتا ہے وہ گہری نیند سے اٹھ جاتی ہے جب بچہ اٹھتا ہے وہ بچے کی خاطر اس وقت بھی اٹھ جاتی ہے جب وہ سو رہا ہوتا ہے۔ بچہ بھوکا ہوتا ہے تو ماں اسے صرف اس کا پیٹ بھرنے کے لیے نہیں کھلاتی اس کی من پسند چیز کھلاتی ہے مختلف مواقعوں پر خود پرانے کپڑوں میں گزار لیتی ہے لیکن اپ اس کی اولاد کو نئے کپڑوں میں دیکھتے ہیں تمام بچپن بچے کا خیال رکھنے میں گزر جاتا ہے۔ دونوں کی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے بچہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور وہ پہلے سے کمزور ہو رہی ہے ماں کی طاقت بچے میں منتقل ہو رہی ہے اب وہ اسے اسکول بھیجتی ہے وہاں بھیج کر بھی اس کی باتیں یاد کر کے خوش ہوتی ہے کہ وہ کیسے بولتا ہے کیسے شرارتیں کرتی ہے اور کیسے اس کی ٹیچرز اس کی تعریفیں کرتی ہے۔ وہ اگر اچھا پڑ جائے فرمانبردار ہو جائے تو ماں کی خوشی کی انتہ نہیں رہتی اور اگر ماں کی امیدوں کے مطابق نہ چلے تو اس سے اس کے حال پر نہیں چھوڑتی اسے کامیاب اور اچھا انسان بنانے کے لیے ایک مرتبہ پھر کمر کس لیتی ہے پھر ہمت جوان لیتی ہے اس کی فکر کا سلسلہ رکتا نہیں ہے تمام عمر چلتا ہے۔
ہمارا کسی سے خاص تعلق نہ ہو اور اس سے اختلاف ہو جائے اختلاف کی صورت میں وہ ہماری غیبتیں کرے جڑے کاٹے یا بدتمیزی کرتے تو ہمیں دکھ ہوگا۔اس کے برعکس ہمارا کسی سے گھیرا تعلق ہو جس کی ہم نے مشکل وقتوں میں مدد کی ہو جس کے ساتھ زندگی کا بہترین وقت گزارا ہو اور اگر اختلاف کی صورت میں وہ شخص ہماری غیبت کرے ہمیں نقصان پہنچائے یا ہم سے بدتمیزی کرے تو بے حد دکھ ہوگا جس کے ساتھ جتنا اچھا وقت گزرا ہو اس سے تعلق خراب ہونے پر اتنا زیادہ دکھ ہوتا ہے اسی لیے کہ کہتے ہیں کہ انسان کو عام طور پر سب سے زیادہ نفرت اس سے ہوتی ہے جس سے کبھی بہت زیادہ محبت رہی ہو کیونکہ محبت مر بھی سکتی ہے ۔
انسان پر جو احسانات ماں کرتی ہے اس کی قیمت چکانا ناممکن ہی نہیں ہے۔ وہ اپنے بچے کی مادی ہی نہیں جذباتی ضروریات کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے۔ اگر دل ازاری کی جائے تو ماں پر کیا گزرے گی بیان سے باہر ہے۔
بچہ کسی عمر کا بھی ہو جائے اسے ماں کی ضرورت رہتی ہے
یقین کریں اگر ماں اور اولاد کے رشتے میں درار ائے تو اس کا نقصان ماں کو کم اولاد کو زیادہ ہوتا ہے جو خلا اولاد کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے۔ اسے بھرنا اسان نہیں ہے اولاد چاہے کتنا ہی ظاہر کرے کہ اسے پرواہ نہیں ہے اسے پرواہ ہوتی ہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس کے اندر کسک ہوتی ہے۔ اگر کسی کی ماں نہیں ہے تو یہ الگ بات ہے ماں ہو تو تعلقات خراب ہوں یہ دوسری بات ہے اگر کسی کی ماں نہیں ہے اور ماں کی زندگی میں اس نے ماں کی خدمت کر لی تو یہ خدمت اس کے دل میں اطمینان کا سبب بنتی ہے اور اگر ماں ناراض ہو اس نے ماں کی خدمت نہ کی ہو تو یہ بہت تکلیف کا سبب بنتی ہے۔
بچوں کو احترام اور فرمانبردری کیسے سکھائیں
جس طرح مذہب اور فرمانبردار بچے کی پرورش کے فوائد بے شمار ہیں اسی طرح ایسے بچے کی پرورش بھی اسان کام نہیں ہے اگر اپ کو لگتا ہے کہ یہ کام اسانی سے ہو جائے گا تو یہ اپ کی غلط فہمی ہے۔
غیبتیں مت کریں
بعض خواتین اپنے ساس سسر یا گھر کے دیگر افراد کے رویوں سے تنگ ا چکی ہوتی ہیں وہ بچوں کے سامنے بھی اور میکے والوں کے سامنے بھی سب کی برائیاں کرتی ہیں اس کا براہ راست اثر بچوں کی شخصیت پر پڑتا ہے ان کے دلوں میں بڑوں کی وہ عزت نہیں رہتی جو ہونی چاہیے بچوں کے سامنے کسی کی غیبت نہ کریں اپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مشورہ دینا اسان ہے عمل کرنا بہت مشکل ہے اپ کی درست سوچ رہے ہیں یہ کوئی اسان کام نہیں ماہر بشریات کے مطابق انسان کی ترقی کا سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے تقریبا 65 ہزار برس قبل الفاظ کی مدد سے بات چیت کرنے کا فن سیکھا اس فن کی بدولت اس نے علم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کیا ان الفاظ کی مدد سے اس نے سب سے زیادہ کیا کام کیا ؟ غیبت کی ہم سب جانتے ہیں کہ غیبت کے بغیر انسان کا گزارا نہیں ہے ایک عام انسان کے لیے غیبت کے بغیر گفتگو کرنا اسان نہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مشکل راستے سے گزر کر ہی زندگی میں آسانیاں اتی ہیں مشکل گھاٹیوں سے گزر کر ہی عظمت کی بلندی نصیب ہوتی ہے۔
یا تو ابھی دل کی بڑا نکال کر ہلکے پھلکے ہو جائیں اور اس کے بعد بچوں کی محبت اور توجہ کے لیے ترستے رہیں یا ابھی مثبت سوچ اپنائیں اور زبان کو شکوہ شکایت اور غیبت سے محفوظ رکھیں ۔
ساس کی خدمت لازم نہیں
بہت سی خواتین کا یہ موقف ہے کہ ساس کی خدمت کرنا ہم پر لازم نہیں ہے اس لیے ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔
اگر اپ خاتون ہیں اور اپ کو لگتا ہے کہ اپ پر سانس کی خدمت لازم نہیں ہے تو اپ کو اس بات کا شدید احساس ہونا چاہیے کیا اپ کے شوہر پر ان کے والدین کی خدمت فرض ہے اس فرض کی ادائیگی میں ان کی مدد کی جئے۔ انہیں محبت سے احساس دلائیں کہ وہ اپنے ماں باپ کو وقت دیں ان کی ضروریات پوری کریں انہیں احساس دلائیں کہ ماں باپ کی موجودگی کتنی بڑی دولت ہے اگر اپ کو واقعی اپنے شریک حیات سے محبت ہے اپ ان کی دنیا اور اخرت سوار نے میں دلچسپی رکھتی ہیں تو یہ کام لازمی کریں اگر ایسا نہیں کریں گی تو اپنے شوہر کا ہی نہیں اپنا بھی نقصان کریں گی۔ چونکہ بچے اگے چل کر اپ سے یہی کچھ سیکھ لیں گے اور اپ ہر روز خون کے گھونٹ پییں گے یا تو اپنے شوہر کو اس طرف رغبت دلائیں یا خود بڑھ کر اپنے ساتھ سسر کی خدمت کریں اگر ایسا نہیں کیا تو اپ دونوں کا نقصان ہے۔
بہن بھائیوں میں محبت پیدا کریں
بڑوں کی عزت سکھانے کا ایک بہت کرامت طریقہ یہ ہے کہ گھر کے کسی بھی چھوٹے کو بڑے سے بدتمیزی کی اجازت نہ دیں۔ کوئی بھی چھوٹا بھائی یا بہن اپنے بڑے بھائی یا بہن سے بدتمیزی نہ کرے کھیل میں جھگڑے ہوتے ہیں اختلافات ہوتے ہیں وہ تو ہوں گے
لیکن ان اختلافات کی صورت میں انہیں بدتمیز نہ کرنے دیں اگر اپ نے گھر میں چھوٹے بڑے کی عزت کرنے کا کلچر پیدا کر دیا تو اس کا فائدہ ساری عمر اٹھائیں گے
ان باتوں کے ساتھ ان تمام باتوں پر عمل کریں جو غصہ ڈاٹ ضد یا مار کے متعلق کی گئی ہیں۔ ایک انسان تمام باتوں پر عمل نہیں کر سکتا لیکن جتنا عمل کر سکتے ہیں کریں کیونکہ جتنی زیادہ باتوں پر عمل کریں گے زندگی اتنی زیادہ خوبصورت ہو جائے گی