27 ویں آئینی ترمیم آئندہ ہفتے قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہاؤس بزنس مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ستائیس ویں آئینی ترمیم آئندہ ہفتے قومی اسمبلی سے منظور کرائی جائے گی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس چودہ نومبر تک جاری رہے گا جبکہ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر نے پارلیمانی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔دوسری طرف حکومت نے تمام وفاقی وزراء کے غیر ملکی دورے منسوخ کر دیے گئے اور حکومتی ارکان پارلیمنٹ کو بھی بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت جاری کردی اور تمام کابینہ ممبران اور ارکان کو اسلام آباد میں موجود رہنے کا کہا گیا ہے۔ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے پیش نظر ہدایت جاری کی گئی۔
واضح رہے کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پی پی پی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔
مجوزہ 27 ویں ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آئینی عدالت کو دی جائے گی ۔ ہائیکورٹ جج کے تبادلے کیلئے متعلقہ جج اور چیف جسٹس کی رضامندی کی شق بھی ختم کردی جائے گی۔ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی گنجائش سمیت بہبود آبادی اور محکمہ تعلیم بھی صوبوں سے واپس لینے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
سینیٹ
ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ 7 نومبر کو سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے کا امکان ہے۔ حکومت نے سینیٹ میں جے یو آئی کے بغیر ہی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کردیا۔ 96 کے ایوان میں حکومت کو 65 ارکان کی حمایت ملنے کا قوی یقین ہے۔
ذرائع نائب وزیراعظم کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم کےلیے اے این پی کے 3 سینیٹر کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔ آزاد سینیٹر نسیمہ احسان سے بھی حمایت کی یقین دہانی حاصل کرلی گئی۔






















