سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کا تحریری حکم جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے تناظر میں کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا نہ ہی پُر تشدد احتجاج پر احتساب ہوا، نتیجتاً قوم کو نو مئی کے واقعات دیکھنے پڑے۔ عدالت عظمیٰ نے ماضی میں ساز باز سے درخواستیں مقرر نہ ہونے کو بھی تسلیم کرلیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کا تحریری حکم جاری کردیا۔ حکم نامے میں سپریم کورٹ نے ماضی میں ساز باز سے درخواستیں مقرر نہ ہونے کو تسلیم کرلیا۔ یہ بھی کہا کہ دوسروں کیلئے مثال قائم کرتے ہوئے یہ عدالت سپریم کورٹ میں کی گئی ہیرا پھیری تسلیم کرتی ہے، عدالت عظمیٰ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے یہ سچ تسلیم کرتی ہے، عدالت ثبوت دے گی کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سچائی انسان کو آزاد کرتی ہے اور اداروں کو مضبوط بناتی ہے، پاکستانی عوام سچ سے کم کسی چیز کے مستحق نہیں، لازم ہے کہ ہر ادارہ شفاف اور ذمہ داری سے کام کرے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے تناظر میں کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا نہ ہی پُرتشدد احتجاج پر احتساب ہوا، نتیجتاً قوم کو 9 مئی کے واقعات دیکھنے پڑے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ 6 فروری 2019ء کو دیا، عدالتی فیصلے میں ماضی کے پُرتشدد واقعات کا حوالہ دیکر مستقبل کیلئے وارننگ دی گئی، تقریباً 5 سال گزرنے کے باوجود حکومتوں نے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا، فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں دائر ہوئیں جنہیں سماعت کیلئے مقرر نہ کیا گیا جس کے سبب عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پرتشدد واقعات کی نشاندہی اور مستقبل کے خدشات واضح کررہا تھا، حیرت نہیں کہ تشدد کو مقصد حاصل کرنے کا طریقہ سمجھا جاتا رہا، آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کرنے والوں سے نا انصافی ہوئی، فیصلے پر عمل نہ ہونے سے بہتر پاکستان کیلئے جدوجہد کرنیوالوں سے بھی ناانصافی ہوئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ حیرت ہے سیاسی لیڈر شیخ رشید نے غلط فہمی کی بنیاد پر درخواست دائر کی، شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ وفاق کی جانب سے معاملے کی انکوائری کیلئے کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس تک توسیع کی تجویز ہے، ٹی او آر میں شامل کیا جائے گا کہ درخواستیں کسی کے کہنے پر تو دائر نہیں کی گئیں؟، اٹارنی جنرل کے مطابق درخواستیں دائر کرنے کا معاملہ ٹی او آرز میں شامل ہوگا، ابصار عالم نے بتایا چیئرمین پیمرا کا عہدہ حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ نظرثانی درخواستیں مقرر نہ ہونے پر سپریم کورٹ عملے سے رپورٹ مانگی گئی، ایڈیشنل رجسٹرار فکسچر اور ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے مشترکہ رپورٹ جمع کرائی، یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عمل لازم ہے، آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کے مطابق تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو فیصلے پر عملدرآمد کرنا چاہئے، جب نظرثانی کی درخواستیں زیر التواء ہوں تو عملدرآمد رک سکتا ہے، اب نظرثانی کی تمام درخواستیں نمٹا دی گئی ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کیا عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین کا آئینی اختیار استعمال کرنا چاہئے، جو لوگ فیصلے کے وقت حکومت میں تھے وہ اب حکومت میں نہیں رہے، اب الیکشن کمیشن کی تشکیل بھی بدل گئی ہے، یہ مناسب نہیں ہوگا کہ موجودہ عہدیداروں کو اپنے سابق عہدیداروں کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کی فنڈنگ سے متعلق وقت مانگا تھا، الیکشن کمیشن کو دی مدت ابھی ختم نہیں ہوئی، الیکشن کمیشن اگلی تاریخ کا انتظار کئے بغیر اپنی رپورٹ پیش کرے۔