اسلام آباد کی مقامی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس میں مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم نے دلائل مکمل کرتے ہوئے ملزم شاہنواز امیر کی سزائے موت کی استدعا کر دی۔ کہا چشم دید گواہ جھوٹ بول سکتا ہے، لیکن ڈاکومنٹس نہیں۔ تمام تر شہادتوں اور ثبوتوں کے مطابق یہ جرم ثابت ہوتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سارہ انعام قتل کیس کی سماعت سیشن جج ناصر جاوید رانا نے کی ۔ مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فرانزک رپورٹ کے مطابق ملزم کے موبائل سے دو تصاویر ملیں جن میں سے ایک مقتولہ کی تھی۔ آلہ قتل ڈمبل بھی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سارہ انعام کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے اور ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔پوسٹمارٹم کے مطابق تمام زخم موت واقع ہونے سے پہلے کے ہیں۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ میسج میں طلاق دی گئی۔
پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقتولہ اور ملزم کی چیٹ میں تین میسجز ڈیلیٹ کئے گئے ہیں جو ممکنہ طور پر طلاق دینے کے حوالے سے تھے۔ ملزم کی والدہ ثمینہ امیر شاہ نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے قتل کیا ہے۔ کرائم سین پر ملزم شاہنواز امیر کی شرٹ اور ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔ وکیل صفائی کی استدعا پرعدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ سارہ انعام کے قتل کا یہ واقعہ 23 ستمبر2022 بروز جمعہ صبح 10 سے 11 بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔ قتل کی اس واردات کی اطلاع ملزم شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو دی تھی۔اطلاع ملنے پر پولیس چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پہنچی تو ملزم نے پولیس کو دیکھتے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا تاہم پولیس نے کمرہ کھلوانے کے بعد ملزم کو قابو میں کر لیا تھا۔ جب ملزم کو کمرے سے نکالا گیا تو اُن کے کپڑوں پر خون کے دھبے موجود تھے۔
ملزم نے ابتدائی تفتیش میں پولیس کو بتایا کہ انھوں نے لڑائی کے دوران اپنی اہلیہ سارہ انعام کے سر پر ڈمبل مارا اور بعدازاں ان کی لاش کو واش روم میں چھپا دیا۔ ملزم نے آلہ قتل یعنی ڈمبل بھی خود برآمد کروایا جس پر انسانی خون اور بال لگے ہوئے تھے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے ڈمبل کے متعدد وار کر کے اپنی اہلیہ کا قتل کیا۔