پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ سیلاب کے نرغے میں رہا اس کے نقصانات، تباہی اور بربادی کی بازگشت کئی سالوں تک گونجتی رہے گی۔سیلاب سےلاکھوں لوگ متاثرہوئے، ہزاروں دیہات ڈوب گئےاور قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ صوبے کی چیف ایگزیکٹو مریم نوازشریف سیلاب کے دوران خاصی متحرک رہیں، فیلڈ میں جاکر متاثرین کی داد رسی کی اور متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت اور بحالی کے لیے ایک بڑے پیکج کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے متاثرین کے لیے پنجاب حکومت کے پروگرام اپنا گھر اپنی چھت،اسکیم میں شمولیت جیسے اقدامات کو بھی اپنے ترجیحات میں شامل کیا۔
سیلاب کے دوران پنجاب میں تاریخ کا سب سےبڑاریلیف اینڈ ریسکیو آپریشن کیا گیا۔ لاکھوں متاثرہ افراد کومحفوظ مقامات پرمنتقل کیا گیا جبکہ ان کے مال مویشی اور دیگر جانوروں کو بھی بچایا گیا تاکہ دیہی معیشت کو تباہی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس ریلیف آپریشن میں ریسکیو 1122، فلاحی ادارے اور پاک فوج کا کردار سب سے نمایاں رہا، وفاقی اور پنجاب حکومت ایسے بہادرسپوتوں اور قومی ہیروز کو سرکاری اعزازات اورایوارڈز سے نوازے تاکہ ان کی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکیں۔ پنجاب میں سیلاب متاثرہ علاقے کےدوران چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی کھل کروزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے بروقت اقدامات اور اداروں کی انتھک کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
یہ سیلاب کے دوران امدادی سرگرمیوں کا ایک پہلو تھا مگر اصل مسئلہ جو اس آفت کے دوران نمایاں ہوا جس کی شدت سے کمی محسوس کی گئی وہ تھی بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی جس سے ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا ہے۔اگرچہ پنجاب کے وزرا اور صوبائی ارکان اسمبلی وزیراعلی مریم نواز کی ہدایات پر فیلڈ میں موجود رہے، لیکن بلدیاتی نمائندوں کا نہ ہونا اس بحران میں ایک نمایاں رکاوٹ کےطور پر سامنےآیا۔ مقامی نمائندے اپنی کمیونٹی کےحالات سےواقف ہوتے ہیں اور یہی بڑی وجہ ہے کہ یہ نمائندے امدادی سرگرمیوں کو زیادہ مؤثر، منظم اور شفاف انداز میں انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں اس آفت کے دوران امداد کی منصفانہ تقسیم اور بحالی کے اقدامات میں مزید تیزی ہوسکتی تھی۔
پنجاب میں اگربلدیاتی انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جمہوری تسلسل کی کمی ملے گی۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اکثر غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے۔ ایوب خان کے دور میں بیسک ڈیموکریسی سسٹم متعارف کرایا گیا تھا جس کے تحت غیرجماعتی بنیادوں پربلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ اسطرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے۔ نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اوائل دور میں بلدیاتی انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کی عدم دلچپسی رہی،1991 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے مگروہ بھی غیر موثر رہے۔
پرویزمشرف کے دور کی بات کریں تو غیرجماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ ن جب 2013 میں برسراقتدار آئی تو 2015 میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات لوکل گورنمنٹ سسٹم کے لیے قانون سازی ہوئی مگرانتخابات نہ ہوسکے۔ اسطرح زیادہ ترانتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے اور منتخب نمائندوں کو حقیقی اختیارات تخویض نہ کئے جاسکے جو بنیادی طورپر بلدیاتی انتخابات کی روح کے خلاف ہے۔
الیکشن کمیشن پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر ناراضی کا اظہارکرچکا اور عندیہ دیاگیا تھا کہ حکومت نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان نہ کیا تو کمیشن خود انتخابات کا شیڈول جاری کرے گا۔ اس تناظر میں پنجاب میں ایسا لگ رہاہے کہ حکومت رواں سال دسمبرکےاختتام پریا جنوری کے آغاز میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر جائزہ لیں تو پنجاب اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ نئے بلدیاتی قانون کے خدوخال میں اختیارات نچلی سطح پر منتقلی اور چند وعدے وعید بھی کئے گئے ہیں۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کا جائزہ لیں تو اس میں یونین کونسلز میں وارڈ سسٹم ختم کردئیے گئےہیں جبکہ ہرکونسل سے9 عام کونسلرزمنتخب ہوں گے۔ مخصوص نشستیں خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں، کسان اور مزدوروں کے لیے تفویض کی گئی ہیں۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025کے تحت چیئرمین اور نائب چیئرمین کا انتخاب براہِ راست عوام کے بجائے کونسلرز کریں گے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ کونسلز کے بجائے ڈسٹرکٹ اتھارٹیزہوں گی، جن میں منتخب چیئرمین اور معاون ہوں گے۔بلدیاتی اداروں کو مقامی ٹیکس وصولی اورترقیاتی کاموں کے اختیارات دئیےجائیں گے اور فنانس کمیشن کے ذریعے وسائل کی تقسیم میں بھی شفافیت لائی جائے گی۔
ان اصلاحات پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ ایک مثبت تجاویز ہیں مگر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ منتخب نمائندوں کا اثر کم نہ ہو اور کہیں وہ بیوروکریسی کے زیر اثر نہ رہے جائیں اگر ایسا ہوا تو اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا۔
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اسطرح کی آفت سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے اور بلدیاتی نمائندوں کا ہونا ناگزیرہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت نہ صرف نئےقانون کو مکمل کرے بلکہ الیکشن کا شیڈول جلد سے جلد طے کرے، شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے اور منتخب نمائندوں کو حقیقی اختیارات دے۔
سیلاب کے کٹہرے میں پنجاب کا مقدمہ یہ ہے کہ عوام کو نچلی سطح پر جوابدہ اوربااختیار نمائندے دئیے جائیں تاکہ ہر آفت اور ہر بحران کا مقابلہ حق و حکمرانی کے اصول سے کیا جا سکے۔ یاد رکھیں کہ عوامی حکومت یعنی مقامی حکومت بلدیاتی ادارے ہی عوامی طاقت کا اصل چہرہ ہیں۔ پنجاب کے عوام برسوں سے اس حق کے منتظر ہیں، اور اب مزید تاخیر نہ جمہوریت کے لیے سودمند ہے نہ عوامی خدمت کے لیے!!!
حسنین خواجہ شعبہ صحافت سے گزشتہ 25 سال سے وابستہ ہیں جو مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں سما ٹی وی میں بطور کنٹرولر نیوز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔





















