سپریم کورٹ میں 31 اکتوبر 2024 سے 29 مئی 2025 تک ججز کمیٹیوں کے اجلاسوں کے منٹس پبلک کر دیے گئے، جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں ہونے والی مختلف اقدامات سے متعلق تمام حقائق پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سینئر ججز کے درمیان اختلاف رائے کے دوران گزشتہ برس کیا کچھ ہوتا رہا؟ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا فل کورٹ کا مطالبہ کیوں تسلیم نہ ہوا؟ ساری میٹنگز کے منٹس پبلک کر دیئے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان کا جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا، دونوں ججز نے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم 4 نومبر 2024 کو فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ آرٹیکل191اے کے تحت آرٹیکل183/3 کی درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، آرٹیکل191اے کی ذیلی شق 4کے تحت ججز آئینی کمیٹی ہی کیس فکس کرنے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، آرٹیکل 191اے کی ذیلی شق تین اے کے تحت آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت درخواست آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے۔
خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 191اے کی شق چار آئینی بینچ کے ججز پر مشتمل کمیٹی کو معاملہ سپرد کیا جاتا ہے نہ کہ ججزریگولر کمیٹی، ججز کمیٹی 2023 ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی، کمیٹی کے اپنے بھائی ججز اراکین کی تشویش کو سمجھتا ہوں جو26ویں ترمیم کو چیلنج کرنےوالی آئینی درخواستوں کی سماعت مقررکرنےسےمتعلق ہے۔
چیف جسٹس نے خط میں مزید لکھا کہ میں نے ذاتی طورپر سپریم کورٹ کے 13ججز سے رائے لی، بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانے کو مناسب نہیں سمجھا، دو ججز نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کی جائیں، کیا ایسا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے13 ججز میں سے9 کا موقف تھاکہ 26 ویں آئینی ترمیم فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے مقرر کی جائے، جب ججز کی رائے آچکی تو یہ حقائق دونوں ججز کو بتا دیئے گئے انہیں 13ججز کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔






















