وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حکمت عملی سے صوبے کو 30 سال پرانے ’کموڈٹی قرض‘ سے نجات مل گئی جو گندم کی خریداری کے باعث پیدا ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2025 کو نیشنل بینک کو 13.9 ارب روپے کی آخری قسط ادا کر کے کمرشل بینکوں کا تمام کموڈٹی قرض ختم کر دیا گیا۔
اس سے قبل بروقت ادائیگی نہ ہونے پر پنجاب حکومت ماہانہ 50 کروڑ روپے سود ادا کرنے کی پابند تھی۔
گندم کی اوپن مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر خریداری نے مارکیٹ کارکردگی کو متاثر کیا اور آٹے و روٹی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں جس کا بوجھ شہریوں کو مہنگائی کی شکل میں جیب سے ادا کرنا پڑا۔
جون 2022 میں یہ ’صوبائی گردشی قرض‘ 630 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 2024 تک 1.15 کھرب روپے ہو جاتا جو سالانہ بجٹ کا 35 فیصد تھا۔
محکمہ خوراک ہر سال 35 سے 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدتا تھا لیکن 70 لاکھ کسانوں میں سے صرف 2 سے 4 لاکھ کسان اس پالیسی سے فائدہ اٹھاتے تھے جبکہ مہنگی خریداری سے ناجائز منافع خوروں کی کمائی کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے قرض کی ادائیگی کا منصوبہ بنایا جس کے تحت عام سبسڈی کی بجائے تمام کسانوں اور زراعت کی مجموعی مدد کی پالیسی اپنائی گئی۔
صوبائی بجٹ سے 761 ارب روپے ادا کیے گئے جن میں 733 ارب روپے اصل قرض اور 28 ارب روپے سود شامل ہیں۔






















