فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) حکام نے ملک بھر کی شوگر ملز کے ڈائریکٹرز کی فہرست پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کردی۔
جنید اکبر کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں ایف بی آر حکام نے شوگر ملزکے ڈائریکٹرز کی فہرست پیش کردی، حکام نے کہا کہ شوگرملز کی ملکیت میں تبدیلی کا اپ ڈیٹ ڈیٹا ایس ای سی پی کے پاس ہوگا۔
رکن کمیٹی عامر ڈوگر نے کہا کہ ملک کی 50 فیصد شوگر ملز صنعت کاروں جبکہ باقی 50 فیصد اشرافیہ کی ہیں، سب سے زیادہ شوگر ملیں صدر مملکت آصف زرداری ہیں۔ دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے نمبر پر شریف خاندان ہے۔
شازیہ مری سمیت دیگر ارکان نے سیاسی جماعتوں اور لیڈرز کے نام لینے پر اعتراض کردیا۔ شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پارٹیز کا نام لے کر پی اے سی کا ماحول خراب نہ کیا جائے، اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی ہے تو 2020 میں ایک کمیٹی بنی تھی، اس کمیٹی نے انتہا درجے کی کرپشن کی نشاندہی کی تھی۔
رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ جن شوگر ملز نے مال بنایا ان کے مالکان کے نام کیوں نہیں بتائے جاتے، شوگر ملز مالکان کی حکومتیں بننے پر یہ ڈاکے کیوں پڑتے ہیں، پاکستانی شہریوں نے چینی کی 56 روپے فی کلو زیادہ قیمت ادا کی ہے، دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ افغانستان کو چینی برآمد کرکے چینی واپس پاکستان بھی آجاتی ہے، چینی برآمد کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ تین چار ماہ میں خراب ہو جاتی ہے، ابھی بتایا گیا ہے کہ 9 ماہ کا اسٹاک موجود ہے، پھر یہ چینی کا اسٹاک اتنے ماہ تک کیسے برقرار رہے گا۔






















