جب محرم الحرام کا ہلال افق پر نمودار ہوتا ہے تووقت لمحہ بھر کو ساکت ہو جاتا ہے۔ فضا میں ایک ایسی چپ طاری ہو جاتی ہے جس میں تاریخ کی سب سے بڑی قربانی کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ مہینہ، اشکوں کی نمی سے تر، صرف غم و اندوہ کا موسم نہیں بلکہ بیداری، حریت اور شعور کا پیامبر ہے۔ محرم ہمیں سکھاتا ہے کہ جہاں جبر کا اندھیرا چھا جائے، وہاں روشنی کے لیے کسی علمدار کی ضرورت ہوتی ہے۔
کربلا صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک فلسفۂ مزاحمت ہے، ایک ایسی صدا جو ہر زمانے میں یزیدیت کے خلاف اٹھنے والے ضمیروں کو جگاتی ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ فتح شمشیر کی نہیں، اصولوں کی ہوتی ہے۔ اور اصولوں پر استقامت، وحدتِ اُمت کے بغیر ممکن نہیں۔ جب دل منتشر ہوں، صفیں جدا ہوں، اور آوازیں ایک دوسرے کے خلاف ہوں، تو باطل مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں آج کی مسلم امہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔
ایران و اسرائیل کشیدگی کے بعد امتِ مسلمہ کو چاہیے تھا کہ وہ کربلا کے پیغام کو مشعلِ راہ بناتی، لیکن افسوس کہ ہم پھر تفرقے کے بھنور میں جا گرے۔ سامراجی قوتیں جانتی ہیں کہ اگر امت ایک ہو جائے تو ان کی چودھراہٹ خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسی لیے وہ ہماری صفوں میں مسلکی زہر گھولتی ہیں۔ کبھی اہلِ تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی اہلِ سنت پر فتوے تراشے جاتے ہیں۔
جس قوم کے دل متحد نہ ہوں، وہ کبھی اجتماعی بقا حاصل نہیں کرسکتی۔ جسمانی طور پر جتنی بھی بڑی ہو، بکھر کر رہ جاتی ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی یہی بات اپنے لہو سے لکھی۔ جب صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دی، تو ان کے پیچھے ایک متحد اُمت کھڑی تھی۔ جب بغداد میں علم و حکمت کی شمعیں روشن تھیں، تو فقہی اختلافات نہیں بلکہ فکری مباحث تھے۔ مگر جب فرقوں کو شناخت بنایا گیا تو زوالِ اندلس، سقوطِ بغداد، اور تقسیمِ خلافت عثمانیہ ہماری تاریخ کی روشن حقیقتیں بن گئیں۔
یہ وہ وقت ہے جب قلم قبیلہ اگر خاموش رہا، تو تاریخ ہمیں بےحسی کا شریکِ جرم قرار دے گی۔ ہمیں صرف بولنا نہیں، حق کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ بین المسالک ہم آہنگی اب محض ایک نظریہ نہیں، امت کی بقا کی شرط ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم وارثانِ کربلا ہیں یا تماشائیانِ کوفہ؟ ہماری زبانیں اگر زہر اُگلتی ہیں، تو ہم امامِ عالی مقام کے قافلے میں نہیں، بلکہ یزید کے دربار میں کھڑے ہیں۔
باہمی نفاق سے بکھری امت محمدیہ ویسے بھی زیرعتاب ہے۔ فلسطین، لبنان، شام، عراق کے بعد ایران میں بھی وہ اپنا آپ دکھا چکے ہیں۔ ہمیں اس آزمائش سے صرف وحدتِ ملت ہی بچا سکتی ہے۔ مسلک سے اوپراٹھ کرسوچنے کا اس سے زیادہ اہم موقع شاید ہی کبھی گزرا ہو۔۔ یہ صرف اخلاقی یا مذہبی فریضہ نہیں، وجودی تقاضا (Existential Demand) ہے۔ ورنہ اسرائیل اور اسکے ہمنواؤں کی اگلی ضربت اس سے بھی زیادہ سخت ہوسکتی ہے۔
اتحاد، فقط ایک نظریہ نہیں یہ وہ ہتھیار ہے جو ہریزید کے مقابلے میں حسین کو سرخرو کرتا ہے۔ آیئے، ہم سب مل کر فیصلہ کریں کہ ہم امت کے معمار بنیں گے یا اس کے ملبے کے قصور وار؟
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















