یورپی یونین کے ہائی کمشنر برائے خارجہ تعلقات و سلامتی پالیسی جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین تنازع تہذیبوں اور مذاہب کی جنگ میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ترک خبررساں ادارے کے مطا بق کانفرنس آف ایمبیسیڈرز کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں جوزپ بوریل نے کہا کہ اسرائیل۔فلسطین جنگ کو روکنے کے لئے جو کرنا پڑے سب کو مل کر کرنا چاہیے۔
جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ محاذ کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک سمیت ہر کوئی اس طرف سے نظریں چُرا رہا ہے۔ حالیہ سالوں میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان سمجھوتوں کے بارے میں خیال تھا کہ یہ علاقے میں امن کا باعث بنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ اسرائیل فلسطین تنازع اب محض اسرائیل،عرب جنگ نہیں بلکہ اب یہ جنگ تہذیبوں اور مذاہب کی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے۔مشرق وسطیٰ میں جنم لیتا یہ المیہ ،مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں عالمی برادری کی اجتماعی سیاسی اور اخلاقی ناکامی کا نتیجہ ہے اور اس کی قیمت اسرائیلی اور فلسطینی عوام ادا کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کے ہائی کمشنر برائے خارجہ تعلقات نے کہا کہ کئی عشروں تک بین الاقوامی برادری مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتی رہی لیکن اس حل کے لئے کوئی قابل بھروسہ روڈ میپ نہیں دیا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ دونوں طرف اس حل سے انکار کرنے والی قوتین طاقتور ہو گئیں۔
اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینی باشندوں کے خلاف تشدد بلاروک ٹوک جاری رہا اور 7 اکتوبر کے بعد یہ ظالمانہ ہو گیا۔انہوں نے کہاکہ دوسری طرف فلسطین میں بھی اعتدال پسند قوتیں کمزور پڑ گئیں حتیٰ کہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلا ف ایسی کارروائی کی جس کا کو ئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتالیکن اس کارروائی نے ابراہیم اکارڈز اور اسرائیل فلسطین تنازعے کو حل کرنے کی کوششوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسرائیل، فلسطین انتظامیہ، عرب ممالک، یورپی یونین ، ترکیہ، امریکااور ماضی میں اس معاملے میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک ناروے کی شمولیت سے ایک سیاسی مرحلہ شروع کروایا جانا چاہیے اور اس مرحلے کی شکل کا تعین کیا جانا چاہیے۔ یہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لئے آخری موقع ہے۔ اگر ہم اب کامیاب نہ ہوئے تو یہ تشدد اور نفرت پرمبنی جنگ کئی نسلوں تک جاری رہے گی۔