سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے اسمبلی میں موجود لوگوں نے نشستیں کیوں نہ مانگیں۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بنچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بطور پارٹی تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمیں مجبوراً سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں باپ پارٹی کو بغیر الیکشن لڑے مخصوص نشستیں دی گئی تھیں لیکن الیکشن کمیشن اپنی ہی نظیر سے مکر گیا۔
جسٹس امین الدین نے سوال اٹھایا کہ جو چھ لوگ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اسمبلی میں بیٹھے تھے انہوں نے پارٹی کے لیے مخصوص نشستیں کیوں نہیں مانگیں؟ انہوں نے مزید استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں؟۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وہ پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر آئین سے انحراف کیا جس سے پارٹی کو بطور جماعت ختم کر دیا گیا اور امیدواروں کو آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کروانے پڑے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ باپ پارٹی نے عام انتخابات میں بطور جماعت حصہ لیا تھا جبکہ سنی اتحاد کونسل کا معاملہ مختلف ہے۔
جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ وہ دلائل کو آرٹیکل 185 اور 187 کے دائرے میں رکھیں جس پر سلمان راجہ نے کہا کہ وہ حقائق بیان کر رہے ہیں تاکہ عدالت کو پس منظر معلوم ہو۔
دوران سماعت وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض سے متعلق نظرثانی دائر کرنے کی اجازت مانگی جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ مختصر فیصلہ اسی دن لکھوایا گیا تھا، تفصیلی فیصلے کا انتظار نہ کریں اور نظرثانی دائر کر دیں۔
بعدازاں، کیس کی مزید سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔






















