وفاق اور سندھ کے درمیان ایک بار پھر تناؤ کی سی کیفیت ہے، جیسے ماضی میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ حکومت میں معاملات کبھی بھی درست سمت میں نہیں رہے ویسے ہی موجودہ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان معاملات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ دونوں حکومتوں کے وزراء ایک دوسرے پربیانات کے گولے داغتے رہتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے وفاقی بجٹ کی حمایت نہ کرنے کی دھمکی بھی دیدی۔ان کا کہنا تھا کہ بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک روز قبل سندھ حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ سندھ کو ملنے والے متوقع 105 ارب روپے روک لئے جائیں گے۔ سندھ کو گذشتہ سال سے اب تک قابل تقسیم محاصل سے 1,478 ارب روپے ملے ہیں۔ 422 ارب روپے اب بھی واجب الادا ہیں۔ سندھ کو یہ شکایت تحریک انصاف کی حکومت سے بھی تھی اور پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی یہ معاملہ حل نہ ہوسکا تھا۔اور اب ایک بار پھر یہ معاملہ وفاق اور سندھ کے درمیان تنازع کی وجہ بن رہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ کو وفاق سے چلانے کی کوشش نہ کی جائے، آپ میں تو وہ طاقت ہی نہیں ہے، سندھ کو وفاق کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا، پہلے بھی بہت کوششیں ہوچکی ہیں، ایسا اب بھی نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ جب پی ڈبلیو ڈی اسکیمیں صوبوں کو منتقل ہوئیں تو سندھ کو صرف 18 منصوبے دیئے گئے جو ناانصافی ہے۔ یونیورسٹی فنڈنگ میں 4 ارب سے کٹوتی کرکے 2 ارب روپے کر دیے گئے۔ بڑے منصوبے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں شامل ہی نہیں کئے گئے اور سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس بھی قبول نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے بھی کہا تھا کہ سندھ وفاق کی کالونی نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی اتحادی نہیں لیکن ہر مشکل وقت میں حکومت کو کاندھا ضرور دیتی آئی ہے۔مشکلات کے تنے ہوئے رسے پر چلتے وزیر اعظم شہباز شریف کی لاٹھی، پیپلزپارٹی ہی ہے۔ وفاقی بجٹ پرپیپلزپارٹی کے صوبائی اور وفاقی رہنما تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی منظوری میں رکاوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔امید ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو جو ان دنوں سفارتی مشن کی سربراہی کرتے ہوئے بیرون ملک ہیں، کی وطن واپسی پرن لیگ کی اعلیٰ قیادت ان سے رابطہ کرکے صورتحال کو معمول پر لے آئے گی۔اور بجٹ کی منظوری میں اسے کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
سندھ کا آئندہ مالی سال کا خسارے کا بجٹ
سندھ کا آئندہ مالی سال کا خسارے کا بجٹ پیش کیا جاچکا۔ 3451 ارب روپے کے بجٹ میں 38 ارب روپے سے زائد کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد،گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہ 10 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا گیا۔،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کا یہ مسلسل 17واں بجٹ ہے۔وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کی جانب سے جہاں بہت سے دعوے ہیں تو وہیں ناکامیوں کا اعتراف بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 150 بسوں کی آمد میں تاخیر وسائل کی کمی کے باعث ہوئی تاہم انفرااسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔وزیراعلیٰ کا یہ اعتراف اپنی جگہ مگرکراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں یہ 150 بسیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔ سندھ حکومت سترہ برسوں میں چند سوبسیں شہرقائد میں لاسکی ہیں جبکہ یہاں ضرورت پندرہ ہزار سے زائد بسوں کی ہے۔مرادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کیلئے 236 ارب روپے رکھے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجٹ میں زرعی اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ 2 لاکھ سے زائد کسانوں کو سبسڈی اور جدید زرعی مشینری کی فراہمی کیلئے بینظیر ہاری کارڈ جاری کیا جائے گا، سندھ ہاری کارڈ پروگرام کے تحت کسانوں کیلئے 8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔(فی کسان یہ چالیس ہزار روپے کی رقم بنتی ہے) ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ زراعت کے فروغ کیلئے ڈرپ اری گیشن پر سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔نئے بجٹ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کلسٹر فارمنگ منصوبے شروع کئے جائیں گے،کسانوں کو بغیر سود قرضے فراہم کرنے کیلئے سندھ کوآپریٹو بینک قائم کیا جائیگا۔
زرعی اصلاحات کیلئے اقدامات کا جو دعویٰ سندھ حکومت نے کیا اس پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے،ماہرین کے مطابق زرعی شعبہ ملک میں 40 فیصد تک روزگار فراہم کرتا ہے لیکن اس شعبہ کی حالت بہتر نہیں، گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کے جاری کئے گئے اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں زراعت کے شعبے میں موجودہ مالی سال کے دوران شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ بڑی فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ گندم، کپاس، چاول، گنا، مکئی وغیرہ کی فصلوں کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو فصلوں کی پیداوار میں موجودہ مالی سال میں مجموعی طور پر تیرہ فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی جو 70 لاکھ بیلز رہی۔ گذشتہ سال یہ ایک کروڑ سے زائد تھی۔ گنے کی فصل میں چار فیصد،چاول کی پیداوار میں ڈیڑھ فیصد، مکئی کی پیداوار میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔اسی طرح موجودہ مالی سال میں گندم کی فصل میں لگ بھگ نو فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد اس کی پیداوار دو کروڑ 80 لاکھ ٹن رہ گئی جو گذشتہ مال سال تین کروڑ دس لاکھ ٹن تھی۔
صدر سندھ آباد گار بورڈ محمود نواز شاہ کہتے ہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنا اکنامک سروے کرے۔کپاس،گنا،گندم،چاول کی پیداوارمیں کمی آرہی ہے۔پچاس سال میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کاسٹ آف پروڈکشن سو سے دوسوگناتک بڑھ گئی ہے۔ریونیو میں کمی ہوئی ہے۔ حالیہ دو سے تین برسوں میں کاشتکاروں کو پندرہ سو سے دو ہزار ارب روپے تک کا نقصان ہوا ہے۔ زراعت اس وقت دباؤ میں ہے اس کی ایک وجہ موسمی حالات ہیں تو دوسری بڑی وجہ سرکار کی پالیسیاں ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی وجہ سے گندم کی قیمت ڈی ریگولیٹ کی گئی ہے توکاشتکاروں کو گندم ایکسپورٹ بھی کرنے دی جائے۔ مقامی مارکیٹ میں کسانوں کوگندم کی قیمت پر قدغن کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ایکسپورٹ پر پابندی ہوتی ہے۔محمود نواز شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے بجٹ میں زرعی اصلاحات کا اعلان خوش آئند ہے لیکن جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں، کاشتکاروں کو سرٹیفائیڈ بیچ ملنے چاہئیں۔ چھ ہزار ایکڑ رکھنے والی سندھ سیڈ کارپوریشن سے پینتالیس فیصد سے زائد کاشتکاروں کو بیچ نہیں ملتا۔ گندم کا بیچ ٹی ڈی ون کامیاب بیچ تھا اس کے بعدایسا بیچ نہیں آیا۔ان کا کہنا تھا کہ کپاس،گندم،چاول، دھان کی فصل کے بیچ امپورٹڈ ہیں، ہمیں مقامی بیچ پر کام کرنا چاہئے جو یہاں کے موسمی حالات سے مطابقت رکھتے ہوں، فصلوں کیلئے جس قدر ہم پانی استعمال کرتے ہیں اتنے ہی پانی کا استعمال کرکے پڑوسی ملک دگنی پیداوار حاصل کررہا ہے۔ہمارا پانی ضائع ہورہا ہے، کاشتکاروں کو ڈرپ اور اسپرنگل اری گیشن کی طرف جانا چاہئے اس کیلئے سندھ حکومت مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرے۔ محمود نواز شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اسٹاک ہولڈرز کے ساتھ ملکر پالیسی بنائے تو بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
اسلم خان سماء ٹی وی میں بطور بیورو چیف کراچی خدمات انجام دے رہے ہیں گزشتہ 30 سالوں سے مختلف اخبارات اور نیوز چینلز میں کام کرتے رہے ہیں۔






















