کراچی جو پاکستان کی معیشت کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے آج خود بجلی کے بحران کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ایسا شہر جس کا قومی معیشت میں حصہ 70 فیصد سے زائد ہے مگر بدقسمتی سے بنیادی سہولت بجلی سے محروم ہوتا جا رہا ہے، شہر بھر میں کے الیکٹرک کی غیر اعلانیہ اور طویل لوڈشیڈنگ عوام کے لئے ایک مستقل عذاب بن چکی ہے۔ کہیں 8 گھنٹے، کہیں 12 گھنٹے، اور کہیں 20 گھنٹے تک بجلی کی عدم فراہمی کا المیہ روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔ لیاری ، ملیر ،گڈاپ اور کاٹھور سمیت شہر کے دیہی علاقوں کی صورتحال بدترین ہے ان بعض بستیوں میں کئی کئی دن تک بجلی کا نام و نشان نہیں ملتا۔
ان اندھیروں نے صرف روشنی نہیں چھینی بلکہ کاروبار، تعلیم، صحت، اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کو بھی نگل لیا ہے۔ آئے روز لوگ سراپا احتجاج ہیں سڑکیں بلاک ہوتی ہیں، دفاتر کے سامنے مظاہرے، اور نیند سے محروم راتیں ایک معمول بن چکی ہیں۔کراچی میں شدید گرمی کے باعث بجلی کی مجموعی طلب 3500 سو میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ کے الیکٹرک کے پاور پلانٹس 1800 سے 1600 میگاواٹ بجلی بنا رہے ہیں، نیشنل گرڈ سے یومیہ 1100 میگاواٹ اور نجی بجلی گھروں سے 300 میگاواٹ بجلی کے الیکٹرک حاصل کررہی ہے۔ بجلی کی طلب اور رسد میں 300 سے 500 میگاواٹ کا فرق موجود ہے جسے پورا کرنے کے لئے کی 8 سے 12 گھنٹے جبکہ ریکوری کو جواز بنا کر کچھ علاقوں میں 20 گھنٹوں تک کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے ۔
کہنے کو کے الیکٹرک نجی ادارہ ہے مگر طرزِ حکمرانی کسی فرسودہ سرکاری ادارے سے کم نہیں، پرانے تھرمل پلانٹس، مہنگے آر ایل این جی پر انحصار، اور ناقص ترسیلی نظام نے اس کمپنی کو صرف منافع خور ادارہ بنا کر رکھ دیا ہے، جسے صارفین کی پریشانی سے کوئی غرض نہیں۔سندھ ہائیکورٹ نے حالیہ سماعت میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کے الیکٹرک سے رپورٹ طلب کی ہے۔ نیپرا نے بھی سخت نوٹس لیا ہے اور اصلاحی اقدامات کا حکم دیا ہے، مگر یہ احکامات تاحال کاغذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت کی خاموشی سب سے زیادہ افسوسناک پہلو ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کی اذیت ناک صورتحال ان کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔
وفاقی و صوبائی حکومتیں اس مسئلے کو قومی مسئلہ سمجھ کر فوری اور جامع حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔
آج کراچی اندھیرے میں ہے
جسمانی طور پر بھی اور پالیسی کی سطح پر بھی۔
یہ شہر صرف روشنیاں نہیں، پاکستان کی معیشت، روزگار، صنعت، اور ترقی کی علامت ہے۔ اگر یہاں کے باسیوں کو بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا تو اس کے اثرات صرف کراچی پر نہیں بلکہ پورے پاکستان پر مرتب ہوں گے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔






















