گزشتہ چند ماہ میں کراچی سے خیبر تک آٹے کا بحران پیدا کیا گیا جس کے باعث انسان اپنی انتہائی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہوگیا اور روکھی سوکھی بھی غریب کی دسترس سے دور ہوگئی۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں کے شہری آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کے لیے تیار تھے اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح کچھ لوگوں کو اپنوں کی بھوک مٹانے کی خاطر سستا اور مفت آٹے کے ایک تھیلے پر جانیں قربان کرنا پڑٰیں۔
یہ 30 مارچ 2023(8 رمضان المبارک)، کی بات ہے جب والد صاحب نے مجھے نیند سے جگاکر بتایا کہ سندھ حکومت کے سستا آٹا اسکیم کے تحت قائدآباد کے ڈی سی آفس کے باہر آٹے کے ٹرک آئے ہوئے ہیں جس پر میں فوراً اٹھا اور وہاں پہنچ کر ایک لمبی لائن میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کرنے لگا، اچانک وہاں بھگدڑ مچ گئی اور مجھ سمیت تمام افراد نے وہاں سے خاموشی سے نکل جانے میں عافیت جانی کیوں کہ پولیس نے لاٹھی چارچ شروع کردیا تھا، البتہ جب معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو میں ایک بار پھر اسی مقام پر پہنچا تاکہ پولیس کے اس برتاؤ کی وجہ جانے کی کوشش کرسکوں لیکن تب تک سرکاری نرخ پر آٹا فروخت کرنے والے دو ٹرک وہاں سے غائب ہوچکے تھے، وہاں موجود پولیس اہلکار اور دیگر شہریوں سے تفصیلات معلوم کیں تو پتہ چلا کہ ایک خاتون جو آٹے کی دو تھیلیاں خریدنے کے لیے فریاد کررہی تھیں، وہاں موجود عہدیداروں نے نہ صرف ان سے بدتمیزی کی بلکہ دھکا بھی دیا جس پر لائن میں موجود عوام مشتعل ہوگئی اور پھر پولیس نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شہریوں پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔
سستا آٹا فراہم کرنے والے ایک ڈیلر نے بتایا کہ ہم جب بھی یہاں آتے ہیں لوگ تحمل کا مظاہرہ نہیں کرتے، اگر وہ خاموشی سے لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کریں تو سب کو آٹا مل جائے لیکن لوگ دوسروں کو موقع دینے کے بجائے بار بار آٹا لینے آجاتے ہیں دھکم پیل کرتے ہیں جس سے بھگدڑ مچ جاتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے اور حالیہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے جب کہ ماہ رمضان میں ملک بھر میں آٹے کا بحران چل رہا تھا۔ کراچی سمیت دیگر شہروں میں آٹا آسانی سے دستیاب نہیں تھا اور پرچون کی دکانوں میں فروخت ہونے والا مہنگا آٹا غریب کی پہنچ سے دور تھا۔
ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر موجود اعداد وشمار کے مطابق اپریل میں مہنگائی میں 2.41 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد مہنگائی کی ماہانہ شرح 36.42 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ مئی میں مہنگائی میں اپریل کے مقابلے میں مزید 1.6 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد مہنگائی کی مجموعی شرح 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں کھانے پینے کی چیزیں 48.65 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔
امریکی جریدے بلوم برگ کی 2 مئی 2023 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے، جہاں اپریل میں مہنگائی کی شرح 36 فیصد سے تجاوز کرگئی تھی جو 1964 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اس کے برعکس مالیاتی بحران کے شکار سری لنکا میں اپریل میں مہنگائی کی شرح 35 فیصد رہی۔
رمضان المبارک میں وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس میں بھی حکومتوں کی روایتی نااہلی برقرار رہی اور ایسا محسوس ہوا کہ حکومت نے سستے آٹے کے نام پر عوام کی تذلیل کا ایک نیا طریقہ ڈھونا ہے۔ آٹے کی تقسیم کے لیے کوئی موثر طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جس کے باعث لوگ روزے کی حالت میں گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے باوجود خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے تھے۔ ملک بھر میں متعدد مقامات پر دلخراش مناظر بھی دیکھنے کو ملے جہاں بھوک سے بے حال 12 شہریوں نے مفت آٹے کی جستجو میں اپنی جانیں گنوائیں۔
سندھ کے ضلع میرپورخاص کے علاقے گلستان بلدیہ کے رہائشی، 7 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کے باپ ہرسنگ کوہلی سندھ حکومت کے سستا آٹا اسکیم کے تحت آٹا خریدنے کی نیت سے گھر سے نکلا لیکن وہاں انتظامیہ کی جانب سے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث بھگدڑ مچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھا۔
خبر بریک کرنے والے مقامی صحافی فلک شیر نے بتایا کہ ہرسنگ کوہلی کی ہلاکت پر حکومت کی جانب سے ابتدائی طور پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے، یہاں تک کہ ان کے کفن دفن کے لیے ہم لوگوں نے اپنے طور پر 75 ہزار روپے اکھٹا کرکے انہیں دیے اور پھر حکومت کی جانب سے ان کے اہل خانہ کو 5 لاکھ روپے دیے گئے تھے، البتہ اس واقعے پر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرول میر پور خاص وسیم ابڑو کو معطل کردیا گیا تھا لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے دوبارہ چارج سنبھال لیا اور پھر حیدرآباد ٹرانسفر کروالیا۔
سابق ڈی ایف سی میرپور خاص وسیم ابڑو نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کبھی معطل نہیں کیا گیا، البتہ ہرسنگ کوہلی کے واقعے کی انکوائری ہوئی تھی۔ جس پر میں نے ان سے ذمہ داران کا پوچھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور کہا کہ انکوائری کے بعد حکومت نے 10 لاکھ روپے کا چیک ان کے اہل خانہ کو دے دیا تھا۔
میرپور خاص کے ہی ایک اور مقامی صحافی عمران اقبال قائم خانی نے بتایا کہ حکومت نے اگر سستا یا مفت آٹا غریبوں میں بانٹنا ہی تھا تو اس کا انتظام یونین کونسل کی سطح پر کیا جانا چاہیے تھا تاکہ مستحق افراد آسانی سے اپنی یونین کونسل سے آٹا حاصل کرلیتے اور اس میں بدانتظامی کے واقعات بھی رونما نہیں ہوتے۔
رش اور بدانتظامی کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں بھی 3 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تاہم اس دوران صوبے کے ایک رہنما نے نئی مثال قائم کی۔ مقامی ویب سائٹ کے مطابق ضلع لوئر دیر میں ویلج کونسل مایار کے چیئرمین اکرام الحق یوسفزئی نے اپنے گاؤں کے شہریوں کو عزت واحترام کے ساتھ ان کے گھر کی دہلیز پر سرکاری آٹا پہنچایا، انہوں نے مستحقین کی ایک فہرست تیار کی اور پھر آٹا لے کر گھر گھر پہنچایا۔
ایدھی ذرائع کے مطابق رمضان المبارک کے دوران کراچی کے علاقے سائٹ ایریا نورس چورنگی میں ایک نجی کمپنی کی جانب سے آٹے اور راشن کی مفت تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 11 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی وبےہوش ہوئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ذرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم کیوں درآمد کرتا ہے اور ملک میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان کیوں پایا جاتا ہے۔
حکومتی دستاویز اکنامک سرویز آف پاکستان کے مطابق 2017 کے مالی سال میں گندم کی پیداوار 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن تھی۔ 2018 میں 2 کروڑ 50 لاکھ ٹن، 2019 میں 2 کروڑ 43 لاکھ ٹن، 2020 میں 2 کروڑ 52 لاکھ ٹن، 2021 میں 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن، 2022 میں دو کروڑ 64 لاکھ ٹن تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ سال بارشوں اور سیلاب کے باوجود رواں سال ملک میں گندم کی گزشتہ 10 سال کی نسبت 2 کروڑ 75 لاکھ میٹرک ٹن سے ذیادہ پیداوار ہوئی ہے جو جو گذشہ سال کی پیداوار سے 1.6 فیصد زائد ہے۔
ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر موجود ریکارڈ کے مطابق کراچی میں گزشتہ ماہ آٹے کی قیمت میں پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مئی کے آخری ہفتے میں آٹے کی 20 کلو تھیلے کی قیمت 2842 روپے تھی جب کہ پچھلے سال مئی میں 20 کلو تھیلے کی قیمت 1536 روپے تھی۔
ملک کے مختلف صوبوں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت بھی یکساں نہیں تاہم سندھ میں آٹے کی قیمت دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر موجود ریکارڈ کے مطابق مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2776 روپے ہے۔ پنجاب میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2320 سے 2700 تک اور سندھ میں 2520 سے 3000 تک دستیاب ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں 2700 سے 2850 روپے میں فروخت ہورہا ہے اور بلوچستان میں 2800 سے 2900 روپے میں دستیاب ہے۔
خیال رہے کہ سندھ میں گذشتہ سال گندم کی قیمت 2200 روپے فی من تھی جب کہ صوبائی حکومت کی جانب سے رواں سیزن کے لیے گندم کی قیمت 4000 روپے من مقررکی گئی ہے۔
ماہر اقتصادیات اور سابق ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے بتایا کہ وزیراعظم نے گندم کی قیمت 2200 سے 4000 روپے من کردی اور ہر صوبے میں ضلع بندی کی وجہ سے کراچی جیسے بڑے شہروں میں جس مقدار میں گندم چاہیے وہ نہیں ملتی، حکومت اپنی مرضی سے دے دیتی ہے جو فکس نہیں ہے جس کی وجہ سے کراچی میں گندم کی قیمت 4700 سے 5000 روپے من تک پہنچ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ اور کراچی میں آٹے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آٹا مہنگا ہونے کا تعلق ذخیرہ اندوزی سے نہیں بلکہ محکمہ خوراک کی جانب سے لگائی گئی ضلع بندی کے باعث جب کوئی ٹرک ایک شہر سے دوسرے شہر یا ضلع میں داخل ہوتا ہے تو اسے محکمہ خوارک اوردیگر لوگوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی تک پہنچے پہنچتے گندم کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
ضلع بندی سے متعلق سیکریٹری خوراک راجا خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ضلع بندی صرف بہانہ ہے، فلور ملز مالکان چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ گندم خرید کر ذخیرہ کرلیں اور بعد میں مہنگا آٹا فروخت کریں، ورنہ ان کے پاس گندم کی کوئی کمی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے پیش نظر گندم کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع ترسیل پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری عامر نے بتایا کہ کراچی کو ماہانہ بنیاد پر ڈھائی سے تین لاکھ ٹن گندم درکار ہوتی ہے لیکن یہ مقدار نہیں ملتی جس کی وجہ سے آٹا مہنگا فروخت ہوتا ہے جب کہ ہم وفاق سے براہ راست گندم طلب کرسکتے ہیں لیکن وہاں سے جواب ملتا ہے کہ صوبے میں گندم موجود ہے، اب صوبائی حکومت سے رابطہ کریں لیکن بات یہ ہے کہ ہم حکومت سے کیسے لڑسکتے ہیں، ہم تو کمزور ہیں۔
سیکریٹری خوراک راجا خرم شہزاد نے بتایا کہ ڈھائی سے 3 لاکھ ٹن کا مطلب 2 کروڑ بوریاں ہیں جب کہ کراچی کو روزانہ کی بنیاد پر 4 سے 5 ہزار میٹرک ٹن درکار ہوتی ہیں اور ہم کراچی کو روزانہ کی بنیاد پر4000 بوریاں فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے گزشتہ دو ماہ میں پاسکو سے 10 لاکھ بوریاں لے کردی ہیں اور ان کو یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ یہ پنجاب سے بھی گندم منگوالیں جب کہ اندرون سندھ سے بھی ان کو گندم فراہم کی گئی ہے، یعنی ان کے پاس اس وقت گندم کی کوئی کمی نہیں ہے۔
کراچی کے ایک نجی فلور مل کے مالک نے بتایا کہ سرکاری گندم کا مخصوص کوٹہ ہوتا ہے جو بہت کم رکھا جاتا ہے اور وہ بھی صرف رجسٹرڈ فلور ملز کو ملتا ہے، جس کی جتنی بڑی مل ہوتی ہے اس کو اتنا ہی دیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہم پرائیوٹ ملوں سے مہنگی گندم خریدتے ہیں اور پچھلے ماہ میں نے 5100 روپے من کی حساب سے گندم خریدی ہے جب کہ سرکاری گندم کی قیمت 4000 روپے من ہے۔
پنجاب اور سندھ میں آٹے کے ریٹ میں فرق سے متعلق چوہدری عامر نے بتایا کہ سندھ میں حکومت نے گندم نے اپنے کنٹرول میں کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آٹا مہنگا مل رہا ہے، سندھ میں گندم کی ذخیرہ اندوزی میں حکومت خود ملوث ہے، ہم وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور آخر میں ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔
سیکریٹری خوراک نے بتایا کہ میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں آپ کراچی کی کسی بھی 10 فلور ملز میں چلے جائیں، وہاں گندم کی کمی نہیں ہوگی، فلور ملز مالکان کے پاس پچھلی گندم موجود ہے اور ابھی ہم نے ان کو مزید گندم بھی خرید کردی ہے۔ کراچی میں مہنگا آٹا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں پر اندرون سندھ سے آٹا آرہا ہے اور پنجاب سے بھی سستا آٹا آرہا ہے، اور پنجاب کے سستے آٹے کی وجہ سے ان کا آٹا بک نہیں رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی اب باقاعدگی سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو تندور کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن غریب کے لئے وہاں سے بھی روٹی خریدنا مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ ایک روٹی 25 سے 30 روپے میں فروخت ہورہی ہے اور جہاں 20 روپے کی فروخت ہوتی ہے اس کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے جب کہ بیشتر نان بائیوں کے پاس سرکاری نرخ نامہ تک موجود نہیں ہے۔
کراچی کی ایک رہائشی خاتون مریم بی بی (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اور شوہر کی بے روزگای کی وجہ سے گھر میں فاقوں کی نوبت ہے، ایسے میں آٹا بھی سونے کے بھاؤ مل رہا ہے، باقی صوبوں میں کم سے کم مفت آٹا مل تو رہا ہے لیکن ہمیں تو وہ بھی میسر نہیں اور کبھی کبھار سستے آٹے کے ٹرک آتے ہیں لیکن جب تک ہمیں خبر ملتی ہے تو بھی ختم ہوچکے ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مہنگا آٹا خریدنے کی سکت نہیں اور روز روز تندور سے روٹی خریدنے کا بجٹ نہیں ہے، اس لیے صبح وشام بچوں کو چاول کھلا کر گزارا کررہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آٹے پر سبسڈی دیں تاکہ ہمیں گھر بیٹھے آسانی سے سستا آٹا دستیاب ہو اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
کراچی کے علاقے قائدآباد میں ایک نان بائی نے اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ہفتے کی بنیاد پر آٹا کی بوریاں خریدتے ہیں لیکن جب بھی آٹا لینے جاتے ہیں تو قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر مجبوراً ہمیں بھی روٹی کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں کیوں کہ صرف آٹا ہی نہیں، بجلی، گیس اور یہاں تک کہ تندور جلانے کے لیے ہم جس لکڑی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی مہنگی ہوچکی ہے جب کہ دکان کا کرایہ دینے کے علاوہ مزدور کو بھی دیہاڑی دینی پڑتی ہے، ایسے میں 20 روپے میں روٹی بیچ کر بھی اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا لیکن مزید ریٹ بڑھا بھی نہیں سکتے کیوں کہ روٹی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی گاہک کم ہوگئے ہیں۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری عامر نے مجھے بتایا کہ سرکاری قبضے کی وجہ سے گندم مہنگی مل رہی ہے جس کی وجہ سے عوام مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہے، وزیراعظم نے اس سال زیادہ فصل ہونے کا اعلان تو کردیا لیکن جب وزیراعلیٰ سندھ اعلان کریں گے تو سندھ میں گندم سستی ہوگی، حکومتی سرپرستی کی وجہ سے ذخیرہ اندوز سرگرم ہیں اور گندم کو ذخیرہ کر رہے ہیں، جس کا بنیادی مقصد ریٹ بڑھانا ہے۔
سیکریٹری خوارک نے بتایا کہ یہ خبریں پھیلی ہوئی ہیں کہ آنے والے دنوں میں گندم مہنگی ہوجائے گی اس لیے فلور ملز مالکان گندم ذخیرہ کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ بعد میں اگر گندم مہنگی ہوجائے تو اپنی ذخیرہ شدہ گندم سے مہنگا آٹا فروخت کرسکیں اور اسی وجہ سے کراچی میں آٹا مہنگا فروخت ہورہا ہے۔
دو ماہ قبل سندھ کے ضلع میرپورخاص میں کروڑوں روپے کی سرکاری گندم بیچنے کا میگا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ میرپورخاص ضلع کے تعلقہ کوٹ غلام محمد کے محکمہ خوراک کے گودام انچارج عبدالحق آراٸیں نے 4200 سے زاٸد سرکاری گندم کی بوریاں کراچی اوپن مارکیٹ میں فروخت کردیں جن کی مالیت تقریباً 4 کروڑ 53 لاکھ روپے سے زائد تھی۔ بعد زاں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرول میرپورخاص میر علی احمد تالپور نے عبدالحق آراٸیں کے خلاف رپورٹ سیکرٹری محکمہ خوراک کو بھیجی جس پر انہیں معطل کردیا گیا اور ساتھ ہی شوکاز جاری کرتے ہوٸے 14 دن میں تحریری جواب جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔
یہ خبر دینے والے میر پور خاص کے صحافی فلک شیر نے مجھے بتایا کہ عبدالحق آرائیں کو صرف گودام انچارج کے عہدے سے معطل کیا گیا تھا اس کے علاوہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ بنایا گیا البتہ انہیں رقم واپس کرنے کا کہا گیا تھا لیکن اس میں بھی اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے جب عبدالحق آرائیں سے رابطہ کیا گیا تو میرا سوال سننے کے بعد کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا اور کال منقطع کردی۔
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر میرپور خاص میر علی احمد تالپور نے مجھے بتایا کہ عبدالحق آرائیں کا معاملہ اوپر گیا ہوا ہے اور ابھی تک سیکریٹری فوڈ کے پاس ان کی فائل موجود ہے لیکن ہمیں ابھی تک کسی قسم کی کارروائی کا حکم نہیں ملتا، ہوسکتا ہے انہیں قسطوں پر رقم ادا کرنے کا حکم دیا جائے لیکن تب تک وہ معطل ہی رہیں گے۔
اس حوالے سے سیکٹری خوارک نے کہا کہ ایسے کیس میں ہم معطل کرکے شوکاز نوٹس دیتے ہیں اور اگر وہ پہلے شوکاز کا جواب نہیں دیتا تو ادارے کی جانب سے دوسرا شوکاز نوٹس بھیجا جاتا ہے، اگر اس کا جواب بھی نہیں دیا جاتا تو پھر محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے جس میں پیسوں کی ریکوری سمیت دیگر آپشن بھی موجود ہیں، اور میں نے اپنی مدت ملازمت میں بہت سے لوگوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور ان سے ریکوری بھی کی گئی ہے۔