نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیا۔
بدھ کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور ترجمان دفتر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس کا مقصد موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔
نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے غیر ذمہ دارانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیا، پاکستان ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور بیانات نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے، نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کی کوئی بھی کارروائی ناقابل قبول ہے، ہم تصادم روکنے کیلئے عالمی برداری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک کے رہنماؤں سے خطے کی صورتحال پر بات ہوئی ہے، بھارت پاکستان سمیت دیگر ممالک میں دہشتگردی میں ملوث ہے، پاکستانی قوم اور اداروں نے دہشتگردی کا جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے ، بھارتی حکومت کی طرف سے سیاسی مقاصد کیلئے ایسے واقعات کا استعمال ہوتا ہے اور دہشتگردی کے ہر واقعے پر الزام تراشی بھارت کا وطیرہ ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے ، بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دہشتگردی سے جوڑنا چاہتا ہے ، مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق کچلنے کیلئے بھارت نے کالے قوانین کا سہارا لیا، پورا خطہ بھارت کے غیرذمہ دارانہ اقدامات کی وجہ سے خطرے میں ہے، بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف مذموم مہم جاری ہے، بھارت خطے میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کو ہوا دے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت نے ہماری شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش کا جواب نہیں دیا، غور کرنا ہوگا کہ بھارت نے یہ مہم جوئی کیوں کی اور مقاصد کیا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی فریق سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا ، سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارتی بیان عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ،پانی پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی لائف لائن ہے اور سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی برداشت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 2 روز میں بھارت کی جانب سے انتہائی غیرذمہ دارانہ رویہ اور اقدامات کئے گئے ، کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور طاقت سے جواب دیں گے ، بھارت نے کوئی بھی جارحیت کی تو منہ توڑجواب دیں گے، پاکستان کی مسلح افواج مکمل طور پر تیار ہیں ، دنیا پاکستان سمیت مختلف ممالک میں دہشتگرد کارروائیوں پر بھارت سے جواب طلبی کرے ، بھارت کے جارحانہ اقدامات خطے کو تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں ۔
پہلگام معاملے پر عالمی برادری سے 6 سوالات
اسحاق ڈار نے پہلگام معاملے پر عالمی برادری سے 6 سوالات کیے۔
1) کیا یہ وقت نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا میں بھارت کی جانب سے شہریوں کے قتل کا احتساب کیا جائے؟
2) کیا یہ اہم نہیں کہ پہلگام میں متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور بھارت کی جارحیت میں تفریق کی جائے؟
3) کیا ایسا نہیں کہ بھارت ایک ملک پر فوجی حملے کے لیے پراپیگنڈا کر رہا ہے؟
4 ) کیا بھارت کی جانب سے عالمی قوانین کا احترام نہ کرنے سےخطےکی صورتحال خراب نہیں ہوگی؟
5 ) کیا یہ وقت نہیں کہ عالمی برادری مذہبی نفرت انگیزی اور اسلاموفوبیا پربھارت کی مذمت کرے؟
6) کیا ہم آگاہ ہیں کہ بھارت کی جارحانہ سوچ سے خطے میں ایٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ خطرناک ہوسکتا ہے؟
ترجمان دفتر خارجہ
اس موقع پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاں پہلگام میں یہ حملہ ہواہے وہ لائن آف کنٹرول سے 230 کلومیٹر فاصلے پر ہے ، یہ معروف سیاحتی مقام ہے ، یہ سارا علاقہ پہاڑی ہے ، یہ حملہ ایک بج کر 50 منٹ پر شروع ہوا اور 2 بج کر 20 منٹ تک جاری رہا جبکہ حملے کے ٹھیک 10 منٹ کے بعد ہی مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے ، حملے میں نیپالی شہری سمیت 26 لوگ مارے گئے ، آٹھ دن گزر چکے ہیں لیکن کسی کی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گی اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیئے گئے ۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمایت میں چلنے والے سوشل میڈیا اکاونٹس پر چند لمحوں بعد ہی پاکستان کو موردالزام ٹھہرانا شروع کر دیا گیا جبکہ اس وقت کوئی ثبوت یا معلومات دستیاب نہیں ٹھیں، یہ سارا علاقہ پہاڑی ہے اور یہاں سے پولیس سٹیشن پہنچنے میں بھی 30 منٹ کا وقت درکار ہے ، ایف آئی آر درج ہونے کا وقت بہت اہم ہے اور کئی سوالات کھڑے کر رہا ہے ، یہ بہت تیزی سے درج کی گئی ، ایف آئی آر لکھنے کیلئے وقت درکار ہوتاہے اور آپ کو واقعے کی تفصیلات بھی معلوم ہونی چاہیے ، اس مشکل علاقے میں یہ سارا کام دس منٹ میں کیا گیا ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلگام میں ہونے والا واقعہ ایل او سی سے 230 کلومیٹر دور ہے، واقعے کے فوری بعد مقدمہ درج ہونا اور اس کے مندرجات نے سوال پیدا کر دیئے ہیں، الزامات کے بجائے ہم پہلگام واقعے کے حقائق پر جائیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ہم یہاں آپ کو حقیقت بتانے جا رہے ہیں ، بھارت الزام تراشی کر رہا ہے کہ اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے ، پہلگام پاکستانی حدود سے 230 کلومیٹر دور ہے ، اگر آپ علاقے کو دیکھیں تو یہ پہاڑی علاقہ ہے ، مشکل گزار راستوں سے بھرا ہوا ہے ، یہاں پر گھوڑوں پر سوار ہو کر یا بڑی گاڑی پر ہی سوار ہو کر جایا جا سکتا ہے ، یہاں سے پولیس سٹیشن جانے میں 30 منٹ درکار ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس وہاں پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ حالات کا جائزہ لیا اور اس کے بعد انہوں نے پولیس سٹیشن پہنچ کر مقدمہ درج کیا یہ دس منٹ میں کیسے ممکن ہے ، اگر ایف آئی آر کا بھی جائزہ لیا جائے تو ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ان کے ہینڈلرز سرحد کے پار دوسری جانب تھے ، انہوں نے صرف دس منٹ میں یہ اندازہ کیسے لگا لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو اس کی کوئی انٹیلیجنس نہیں تھی لیکن جیسے ہی واقعہ ہو جاتا ہے تو صرف دس منٹ میں اتنی انٹیلی جنس ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ اخذ کر لیا کہ ان کے ہینڈلرز سرحد پار سے تھے ؟۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کو فوری طور پر مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور بھارتی میڈیا نے فوری طور پر پاکستان پر الزام عائد کر دیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پہلگام واقعے پر استعمال سوشل اکاؤنٹس جعفر ایکسپریس حملے میں بھی استعمال ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ الزام تراشی کے بجائے بھارتی حکومت کو سوالوں کے جواب دینا ہوں گے، مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھی بھارتی الزام تراشی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، دہشتگردی کے واقعات کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا بھارت کا وطیرہ ہے، بھارت دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ، پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بھارتی بیانیے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارت اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ "مسلمانوں نے ہندوؤں پر فائرنگ کی"، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور وزیراعظم نے بھی بھارتی بیانیے پر سوالات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارتی میڈیا نے واقعے کے فوراً بعد پاکستان پر الزامات لگانا شروع کر دیے جبکہ ایک زپ لائن آپریٹر کی ویڈیو کو بنیاد بنا کر جھوٹا بیانیہ بنایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جعفر ایکسپریس سمیت دیگر واقعات میں بھی ایک مخصوص بھارتی اکاؤنٹ سے پہلے حملوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور پھر وہی اکاؤنٹ حملے کی تفصیلات دیتا ہے، جسے بھارتی میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ یہ سوالات عالمی برادری اور پاکستان کے لیے غور طلب ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ پاک فوج بھارتی پروپیگنڈے کے مقابلے میں حقائق پر مبنی موقف اپنائے گی اور اس واقعے کی حقیقت سامنے لائے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت کی جیلوں میں سیکڑوں پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر قید ہیں جنہیں بھارتی حکام جعلی مقابلوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے اوڑی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ محمد فاروق نامی ایک معصوم پاکستانی شہری کو بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں شہید کر دیا جبکہ وہ ایک بے گناہ شہری تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت بے گناہ پاکستانی اور کشمیری شہریوں پر درانداز کا لیبل لگا کر انہیں قتل کر رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکام قید پاکستانیوں اور کشمیریوں پر تشدد کرتے ہیں اور جبری بیانات دلواتے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکاونٹس جو پہلگام واقعہ پر پاکستان پر الزامات لگارہے تھے یہی سوشل میڈیا اکاونٹس جب میانوالی میں چار نومبر2023 کو حملہ ہوا تو پیشگوئیاں کر رہے تھے ، میانوالی میں دہشتگرد حملے سے ایک دن پہلے یہی سوشل میڈیا اکاونٹس کہہ رہے تھے کہ ’’ کل بہت بڑا دن ہے ، اس لیے آج جلدی سونے جارہے ہیں‘ ، اگلے دن صبح یہی اکاونٹس کہتے ہیں ’ گڈ مارننگ میانوالی‘ ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق یہاں ہم دیکھتے میانوالی میں دہشتگرد حملہ فتنہ الخوارج کی جانب سے کیا جاتا ہے ، اس کے بعد 6 اکتوبر 2024 کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملہ کیا جاتاہے ، حملے سے قبل یہی سوشل میڈیا اکاونٹس پر ٹویٹ کیا جاتاہے کہ ’ اگلے چند گھنٹوں میں بڑا دن ہے ‘‘ ۔ اس کے بعد ایک اور ٹویٹ کیا جاتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ’ کراچی میں بڑا دھماکہ، مزید تفصیلات آ رہی ہیں ‘۔
سات اکتوبر کی صبح ایک اور ٹویٹ کیا جاتاہے جس میں کہا جاتاہے کہ کراچی ایئر پورٹ کے قریب ایک آئی ای ڈی دھماکہ ہواہے، ایک گاڑی غیر ملکیوں کو لے جارہی تھی ، ایک غیر ملکی زخمی ہواہے جبکہ ایک جاں بحق ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے انکشاف کیا کہ حالیہ جعفر ایکسپریس حملے میں بھی یہی سوشل میڈیا اکاونٹس پر پیغامات جاری کیئے جاتے ہیں، جن میں کہا گیاہے کہ اپنی نظریں آج اور کل پاکستان پر جمائے رکھو ، اس کے بعد جعفر ایکسپریس پر حملہ کیاجاتاہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی پر توجہ دینی چاہیے، جنوری 2024 سے اب تک پاکستان میں 3700 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے جن میں 3896 افراد جاں بحق ہوئے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف آخری مضبوط دفاعی دیوار ہے جہاں اسی عرصے میں 1314 سکیورٹی اہلکار شہید اور 2582 زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ جنوری 2024 سے اب تک 77,816 آپریشنز کیے گئے جن میں 1666 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن میں 83 اہم ہائی ویلیو ٹارگٹس شامل تھے، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے روزانہ 190 سے زائد آپریشنز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان 70 سال سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات نہیں کرتا لیکن پہلگام واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو ضروری ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے جوابی کارروائی کے تمام اقدامات مکمل کر لیے ہیں اور پاکستانی عوام اپنی خودمختاری اور سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کرے گی، قوم متحد ہے اور قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے، پاک فوج ہر محاذ پر کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو مشرقی سرحد پر مصروف رکھے لیکن پاکستانی ادارے بھارت کی ہر سرگرمی کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہر وقت تیار ہیں، اگر بھارت فوجی تصادم کا راستہ منتخب کرتا ہے تو یہ ان کا انتخاب ہوگا لیکن اس کے نتائج کا فیصلہ پاکستان کرے گا۔