مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) نے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ مسترد کردیا۔
پیر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت وفاقی وزرا اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شریک ہوئے جبکہ کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں 6 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
کونسل کی جانب سے کینالز سے متعلق ایکنک کا 7 فروری کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے معاملے کو دوبارہ ارسا کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کا اعلامیہ
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا 52 واں اجلاس وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی شدید مذمت اور نئی نہروں کی تعمیر پر اہم فیصلہ کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق سی سی آئی نے فیصلہ کیا کہ باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہریں نہیں بنائی جائیں گی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ جب تک صوبوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے نہیں ہوتا وفاقی حکومت نئی نہروں کی تعمیر آگے نہیں بڑھائے گی۔
اجلاس میں تمام صوبوں کو شامل کرتے ہوئے زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کے لیے طویل المدتی متفقہ روڈ میپ تیار کرنے پر زور دیا گیا اور واضح کیا گیا کہ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے اور واٹر پالیسی 2018 کے تحت محفوظ ہیں۔
اجلاس میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے یکطرفہ، غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی۔
سی سی آئی نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ممکنہ بھارتی جارحیت اور مس ایڈونچر کے تناظر میں پوری قوم کے لیے اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان ایک پرامن اور ذمہ دار ملک ہے، لیکن اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف وفاقی حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کا عزم ظاہر کیا۔
سی سی آئی نے سینیٹ میں بھارتی غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی بھی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
وزیر اعلیٰ کے پی کی میڈیا سے گفتگو
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ( کے پی کے ) علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق صوبوں کو پانی کا حصہ دیا گیا ہے اور ہر صوبے کو ان کے حصے کا پانی دیا جائے گا، ہم کسی کا حق کسی کو کھانے نہیں دیں گے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کسی صوبے کے مسائل ہیں تو بیٹھ کر حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کا مسئلہ حل ہوگیا، 10 ویں اور11 ویں این ایف سی کا مسئلہ ہے، ہمیں ضم اضلاع کا حق دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جون میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس دوبارہ ہوگا اور ہمارا آئینی حق ہمیں مل جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کی گفتگو
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نہروں کے تنازع کے حل پر وزیراعظم محمد شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس اہم معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو اور وزیراعظم کی ملاقات میں وہ خود موجود تھے جہاں فیصلہ ہوا کہ جب تک صوبوں کے درمیان باہمی اتفاق نہیں ہوتا، کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کی مشاورت کے بغیر کوئی نہر کا منصوبہ آگے نہیں بڑھائے گی اور پانی کے معاہدے 1991 پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ 7 فروری کے ایکنک اجلاس میں نہروں کی منظوری کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور پلاننگ ڈویژن اور ایرسا کو ہدایت کی گئی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ نہروں کی اسکیم پر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا اور بغیر فنڈنگ کے نہریں کیسے بن سکتی ہیں؟۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو گمراہ کیا گیا کہ چولستان کینال بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کو اس معاملے میں غیر ضروری طور پر گھسیٹا گیا حالانکہ انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں واضح کیا تھا کہ بغیر اتفاق کے کوئی فیصلہ تسلیم نہیں کیا جائے گا، صدر کی وضاحت کے باوجود کچھ حلقوں نے بدنیتی سے ملائن کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے زور دیا کہ سی سی آئی نے پہلی بار کوئی منصوبہ واپس بھیجا جو ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے دھرنے والوں سے فوری طور پر احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ سندھ حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ نہروں کا معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا تھا اور پانی کے معاہدے کے مطابق صوبوں کو ان کا جائز حصہ ملنا چاہیے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ باہمی اتفاق تک کوئی نہر کا منصوبہ نہیں بنے گا البتہ اگر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو نہروں کی تعمیر پر غور کیا جا سکتا ہے۔