سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اپیل کے حق پر حکومت سے مشاورت کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت طلب مانگ لی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے، اگر چاہیں تو یہ پالیسی بنالیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا، تمام کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 5 مئی تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ 3 نکات پر دلائل دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلا نکتہ نو مئی کے واقعات سے متعلق ہے، دوسرا نکتہ عدالت کو دی گئی یقین دہانیوں پر عملدرآمد جبکہ تیسرا نکتہ اپیل کے حق کے اجراء سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت سے مشاورت کیلئے مزید ایک ہفتے کا وقت درکار ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ گزشتہ ہفتہ نہروں کے مسئلے اور پاک بھارت تنازع میں مصروفیت کے باعث مشاورت نہ ہوسکی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت کوئی بھی پالیسی فیصلہ کرے، عدالت نے اپنا مقدمہ دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے فیصلے سے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اگر چاہیں تو یہ پالیسی بھی بنالیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے اور تمام کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی صوابدید ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرے یا نہ کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ تینوں نکات پر دلائل کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 45 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ قانونی نکات پر خواجہ حارث دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی درخواست پر کیس کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔