تحریر: نوید بٹ
زندگی میں ہم بہت سی ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں ہم مکمل کر نے کا عزم رکھتے ہیں بہت سے اقوال کو ہم پورے کر دیتے ہیں اور کئی ایسے وعدے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہم وفا نہیں کر پاتے ہیں۔ لیکن اپنے کہے اقوال کو عملی جامعہ پہنانا تو دور ان سے مکر جانا ایک بد اخلاقی فعل ہے۔ پاکستانی تاریخ میں بہت سے سیاستدان آئے اور گئے ، لیکن عمران خان کی یوٹرن مہارت سے پوری دنیا کے سیاستدان دنگ ہیں۔
عمران خان 2018 میں پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور ان کے آتے ہی جیسے ملک میں یوٹرن کی بہار آگئی ۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے اپنی تقاریر میں کہا کہ اگر وہ بطور وزیراعظم منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ کبھی شاہی پروٹوکول نہیں لیں گے جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں بھی نہیں رہیں گے لیکن اقتدار میں آتے ہی عمران خان نے نہ صرف شاہی پروٹوکول لیا بلکہ چھ لگثری گاڑیاں بھی استعمال کرتے رہے اور ساتھ ہی ہر وہ پروٹوکول بھی حاصل کیا جو وزیراعظم کو دیا جاتا تھا ۔ انتخابات سے پہلے جو عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس نہیں رہوں گا ، حلف اٹھاتے ہی پہلے عمران خان نے کہا وہ اسپیکر ہاؤس رہیں گے لیکن بعد میں دل بدلا ، اعلان ہوا عمران خان پنجاب میں رہیں گے اور پھر پنجاب سے بھی سامان سیدھا وزیراعظم ہاؤس منتقل ہو گیا اور یوں ان کے یوٹرنز کی ابتدا شروع ہو گئی۔
اقتدار میں عمران خان نے قدم رکھا اور چیف الیکشن کمیشن اپنی پسند کا تعینات کر دیا ۔ عمران حکومت میں انہیں چیف الیکشن کمیشن بہت ہی اچھے انسان لگتے تھے ایک غیر جانبدار بندہ جو الیکشن کی شفافیت کا حامل تھا لیکن پھر وقت بدلا تو جذبات بھی بدل گئے ، جب عمران خان کو اپنا دور حکومت ختم ہوتا دکھائی دیا تو عمران خان نے چیف الیکشن کمیشن کو ہی الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان بنا دیا۔ عدم اعتماد کے بعد عمران خان نے مطالبہ شروع کردیا کہ چیف الیکشن کمیشن مستعفی ہو ۔ یہاں بھی خان اپنی ہی تعیناتی پر یوٹرن لے کے رہ گئے ۔
عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے اپنے دبنگ انداز سے اپنی تقاریر میں یہ کہتے رہے کہ پی ٹی آئی خاندانی سیاست سے نفرت کرتی ہے اور کسی کرپٹ عناصر کو اپنی پارٹی میں برداشت نہیں کرے گی اس کا فوری احتساب کروائے گی اور ملک میں انصاف کا بول بالا کرائے گی ۔ اقتدار عمران خان کے ہاتھ میں لیکن بھیگی بلی بنے کپتان پی ٹی آئی میں خاندانی سیاست کے حمایتی بھی بنے رہے اور کرپٹ عناصر کا دفاع بھی کرتے رہے۔ بشری بی بی کی بہن بغیر ملازمت کے ایچ ای سی سے تنخواہ بھی بٹورتی رہیں اور فرح گوگی ملکی سرمایہ اپنے سرمائے میں ڈالتی رہیں اب خان نے یہاں بھی یو ٹرن لیا اور فرح گوگی کے دفاع کے لیے پریس کانفرنسز بھی کیں ۔ بشری بی بی کے بھائی احمد مجتبی نے ماڈل ویلج موضع کوئیکی بہاول کے ترقیاتی کاموں میں 2 کروڑ 49 لاکھ سے زائد کا غبن کیا ، پنجاب میں بزدار کی تاریخی کرپشن کی حمایت کرتے رہے اور یوں ان سے اپنا انصاف قائم کرنے کا وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا ڈاکو کہنے والے عمران خان نے نہ صرف ان کے ساتھ اتحاد کیا بلکہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے انہیں پنجاب کا وزیراعلی بھی تعینات کر دیا۔ عمران خان اپنی مفاد کی سیاست میں اپنے مفاد کے لیے اپنے دورے حکومت میں اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے بس یوٹرن ہی لیتے رہے۔
عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے میڑو بس کو جنگلہ بس کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن پھر کپتان اس جنگلہ بس سے اتنے متاثر ہوئے کہ پشاور میں وہی جنگلہ بس بنوا ڈالی اور اس میں اربوں کی کرپشن بھی کی گئی ۔ پاکستان کے اقتدار کو حاصل کرنے میں کپتان بھول جاتے تھے کہ جن پالیسیوں کو وہ حکومت میں آنے سے پہلے تنقید کا نشانہ بناتے تھے وہی وزیراعظم بننے کے بعد کام کرتے تھے۔
عمران خان نے ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں کہا کہ یہ کالا دھن سفید کرنے والی اسکیم ہے، لیکن اقتدار میں آتے ہی خان کو پتہ نہیں کیوں اسی اسکیم کی ضرورت پیش آگئی؟ شاید کپتان بھی چاہتے تھے فرح گوگی اور احسن جمیل گجر اس ایمنسٹی اسکیم سے 33 کروڑ کا فائدہ حاصل کریں اور بنی گالہ میں بیٹھی بیگم بشری بی بی خوش رہیں۔ اقتدر میں آ کر عمران خان نے نہ صرف ایمنسٹی اسکیم کی بہتری کے لیے کام کیے بلکہ اس جیسی اور بہت سی اسکیمیں بھی بنائیں جس سے ان کو ان کے قرابت داروں کو فائدہ حاصل ہو سکے۔
عمران خان حکومت سے پہلے کہتے تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے بیٹھ کے فیصلے کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اقتدار میں آئے اور جنرل قمر جاوید باجوہ انہیں بہت ہی نفیس شخص لگتے تھے یوٹرن سے پہلے عمران خان کہتے کہ اگر کوئی باہر کا لیڈر کہے کہ آپ کا آرمی چیف دہشتگرد ہے اور عمران خان بہت اچھا ہے تو میں اسے اپنی توہین سمجھوں گا ۔ اقتدار چھن جانے کے بعد عمران خان نے اس بیانیے پر بھی یوٹرن لیا اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غدار بنا دیا ملکی تباہی کا ذمہ دار بنا دیا اور ایک انٹرویو میں یہاں تک کہا کہ حکومت میں نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ چلا رہی تھی اور بجٹ تک پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑتے تھے۔ اگر ایک لمحہ کو عمران خان کی بات پر غور کیا جائے تو یہ بات قابل غور ہے کہ عمران خان کو اپنے اقتدار میں رہتے ہوئے یہ سب کیوں نہ یاد آیا اور عدم اعتماد سے اقتدار چھن جانے پر ملکی تباہی کا ذمہ دار انہیں قرار دے دیا۔ عمران یو ٹرن میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ملکی اداروں کو ہی اپنے انتقام کا نشانہ بنا لیا۔
عدم اعتماد سے پہلے عمران خان ایک جلسے میں کہتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ عدم اعتماد آئے لیکن جب عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو عمران خان اسے سازش قرار دے دیتےہیں۔ عدم اعتماد کے سازشی بیانیے پر عمران خان نے بہت سی بار یوٹرن لیا ہے۔ سب سے پہلے عمران خان نے عدم اعتماد پر یہ مؤقف اپنایا کہ امریکہ نے ان لوگوں کو ہم پر مسلط کیا ہے اس کے بعد انہوں نے عدم اعتماد سے متعلق یہ کہا کہ لندن میں بیٹھ کر نوا ز شریف نے یہ سازش کی ہے۔ اس کے بعد 17 دسمبر 2022 کو عمران خان نے بیان جاری کیا کہ جنرل باجوہ نے بیرونی سازش کر کے میری حکومت گرائی ہے جبکہ 23 جنوری 2023 کو انہوں نے اپنی حکومت کے چھن جانے کا الزام محسن نقوی پر ڈال دیا۔ عدم اعتماد پر عمران خان کے یوٹرنز بھی قابل دید ہیں۔
من گڑھت باتوں میں بھی عمران خان پیچھے نہیں ہیں اپنے تصوراتی قتل پر بھی عمران خان نے ایک سے زائد بار یوٹرن لیا۔ پہلے کہا ملک سے باہر میرے خلاف بند کمروں میں قتل کی سازش ہو رہی ہے، پھر انہوں نے الزام لگایا کہ رانا ثنا اللہ ، شہباز شریف اور میجر جنرل فیض نے انہیں قتل کی منصوبہ بندی بنائی ہے، ابھی بات یہاں ختم نہیں ہوئی اس کے بعد عمران خان نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ مجھے دہشتگرد تنظیم کو پیسے دینے کہ الزام میں قتل کرنا چاہتے ہیں، 22 مارچ 2023 کو عمران خان نے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد زمان پارک کے باہر دو اسکواڈ بنائیں گے پھر 4 سے 5 پولیس والوں کو یہ ماریں گے اور اس طرح پہلے یہ ہمارے کارکنوں کو ماریں گے اور پھر مرتضی بھٹو کی طرح مجھے قتل کر دیں گے۔ عمران خان نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کے بدلتے بیانیے سے ملک میں انتشار کی فضا قائم کر دی۔
13 مارچ 2022 کو تحریک عدم اعتماد سے پہلے تک عمران خان کے بیان کے مطابق وہ حکومت میں ٹما ٹر، آلو کی قیمتیں چیک کرنے نہیں آئے ہیں جبکہ عدم اعتماد کے بعد وہ حکومت کو مسلسل بنیادی اشیائے ضروریات کی قیمتیں بھی بتاتے رہے اور مہنگائی کا رونا بھی روتے رہے۔ جب اقتدار میں تھے تو لوگوں سے کہتے مجھے بلیک میل نہ کیا جائے جبکہ اقتدار سے جاتے ہی خود اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔
اقتدار سے پہلے عمران خان احتساب کی باتیں کرتے رہے لیکن جب خود القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار ہوئے تو ملک میں اشتعال انگیزی پیدا کر دی اور ملک میں ایسا انتشار پھیلایا جو ملکی تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوا تھا۔ 9 مئی کو عمران خان نے فوجی تنصیبات پر حملہ اور ملک گیر احتجاج کی کال دی اور اپنے تمام کارکنان کے زریعے فوجی تنصیبات، پشاور ریڈیو اسٹیشن ، جناح ہاؤس اور کینٹ میں جلاؤ گھیراؤ کیا اور پاک فوج کے شہدا کی بے حرمتی کی ۔ اس سب کے بعد عمران خان نے 9 مئی میں ملوث کارکنوں کو پی ٹی آئی کے کارکن ماننے سے ہی انکار کر دیا اور 9 مئی کو ہونے والے تمام واقعے سے اظہار لا تعلقی کی ۔ یہاں تو عمران خان نے اپنے لوگوں کو ہی ماننے سے انکار کر کے یوٹرن کی حد ہی کر دی۔
9 مئی کے واقعے کے بعد اس میں ملوث پی ٹی آئی کارکنوں کو جب گرفتار کیا گیا اور ان کو ملٹری کورٹ کے تحت سزائیں دینے کا کہا گیا تو عمران خان نے ملٹری کورٹ میں سویلین ٹرائل کی مذمت کی اور کہا کہ یہ تو ظلم ہے کہ ملٹری کورٹ میں عام آدمی کا ٹرائل ہو جب کہ عمران خان اپنے دورے حکومت میں ملٹری کورٹ کی نہ صرف حمایت کرتے رہے بلکہ اس کے تحت بہت سے سویلین کو سزائیں بھی دیں گئیں۔
اقتدار کے چلے جانے کے باوجود بھی عمران خان کے یوٹرن نہ ختم ہوئے،پہلے جب انہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میں چوروں کے ساتھ مذاکرات نہیں کروں گا ، عمران خان نے کہا میں آرمی چیف آف پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہوں اور جب آرمی چیف آف پاکستان نے ان کی پیش کش رد کر دی تو اب عمران خان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور یہ گلہ کرتے ہیں کہ مجھ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ہے۔
عمران خان مدر آف آل یوٹرنز ہے ان کے یوٹرن کے نہ ختم ہونے والے قصے بے شمار ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ ہر ایک فن کے ماہر سیاست دان سے بھری پڑی ہے اور عمران خا ن فن ِ یوٹرن کے ماہر ہیں۔