پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ اگر صدر مملکت آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف، پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر ایک ساتھ بیٹھیں تو ایک دن میں مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
سماء ٹی وی کے پروگرام "ندیم ملک لائیو" میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن، مسلم لیگ (ن) کے عابد شیر علی اور پی ٹی آئی کے حامد رضا نے ملکی و عالمی مسائل، سیاسی صورتحال، معاشی چیلنجز اور سماجی تبدیلیوں پر کھل کر گفتگو کی اور پروگرام میں کشمیر، کوئٹہ، خیبر پختونخوا، نہری نظام، دہشت گردی اور میثاق جمہوریت جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔
ندیم افضل چن
ندیم افضل چن نے فلسطین، کوئٹہ اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ بھارت شاید ہی ان کی مذمت کرے اور انہوں نے کشمیر میں حالیہ واقعات کو بھی قابل مذمت قرار دیا۔
معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غریب اور مڈل کلاس کے لیے سونا خریدنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مڈل کلاس کو سونا خریدنے کے لیے پراپرٹی بیچنی پڑتی ہے۔
سیاسی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام نہیں چل سکتا اور سیاست کو دانستہ طور پر گالی بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور پی ٹی آئی کے بانی کے ساتھ سلوک پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ "پتہ نہیں اگلا کون ہوگا جبکہ انہوں نے تجویز دی کہ آصف زرداری، نواز شریف، پی ٹی آئی کے بانی اور آرمی چیف ایک ساتھ بیٹھیں تو ایک دن میں مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے نواز شریف کی لندن سے واپسی اور بانی پی ٹی آئی کو پرول پر باہر لانے کی بھی بات کی۔ اور کہا کہ معاشرہ تبدیل ہو چکا ہے اور یہ تبدیلی کسی ایک جماعت کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہے۔
صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی سے ملاقات کے لیے 6 افراد کی فہرست دی گئی تھی لیکن صرف دو بہنوں کو ملاقات کی اجازت دی گئی جبکہ بہنوں نے تینوں کی ملاقات کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بہنوں، عمر ایوب یا سلمان اکرم سے کوئی خطرہ ہے؟۔
انہوں نے سیاسی بحران کی ذمہ داری سب پر عائد کی اور کہا کہ ماضی کی غلطیاں درست کی جانی چاہئیں ، ہم سے بھی 2018 میں ایک غلطی ہوئی جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ مڈل ٹرم انتخابات بحران سے نکلنے کا ایک آپشن ہو سکتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جنوری میں دو سے تین دور بہترین چل رہے تھے لیکن رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی کی پریس کانفرنس سے معاملات خراب ہو گئے۔
دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کو سرکاری سیکیورٹی دینا سوالات اٹھاتا ہے۔
انہوں نے تنقید کی کہ ایک گروہ پانچ سال تک "اچھا" رہتا ہے، پھر دہشت گرد بن جاتا ہے اور بعد میں اسے قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے، دہشت گردوں نے 80 ہزار لوگوں کو مارا، انہیں قومی دھارے میں نہیں لانا چاہیے بلکہ منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔
عابد شیر علی
عابد شیر علی نے معاشی اور سماجی مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شادیوں میں سونے کا فیشن مڈل کلاس کے لیے بوجھ بن چکا ہے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے "دھی رانی پروگرام" اور آن لائن شادیوں کے رجحان کا ذکر کیا اور ون ڈش پالیسی پر عمل درآمد اور شادیوں میں سادگی کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔
سیاسی ملاقاتوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے جیل میں ہوتے وقت بھی ملاقات کی فہرستیں جاتی تھیں، لیکن سیاسی لیڈروں کے ساتھ "تماشا" نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے سڑکوں پر احتجاج کے بجائے پارلیمنٹ میں سیاسی ڈائیلاگ اور نہری نظام پر بحث کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز دی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو ایوان میں کھڑے ہو کر قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے اور تمام جماعتوں کی قیادت پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے۔
انہوں نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر دستخط ہوئے اور تمام جماعتیں شامل تھیں لیکن اسے ڈی ریل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔





















