اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کتاب کی خوبصورت جلد، اس کے باطن پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ چمکتا دمکتا سرورق، قاری کو لبھاتا ہے، لیکن جب وہ صفحہ پلٹتا ہے تو حقیقت کچھ اور نکلتی ہے۔ یہی حال اُس دنیا کا ہے، جو امریکہ اور یورپ کے خوابناک ہالوں میں سجی نظر آتی ہے۔ جہاں "میڈ اِن یو ایس اے" کی مہر، ایک جادوئی طلسم کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ مگر حقیقت کا آئینہ اگر کسی نے دکھایا ہے، تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر ہم ایک ایسا آلہ ہاتھ میں لیتے ہیں، جس کی پشت پر لکھا ہوتا ہے: "ڈیزائنڈ اِن کیلیفورنیا"۔ یہ چند الفاظ نہیں، ایک عہد کا نوحہ ہیں۔ ایک حقیقت، جو اپنی مکمل سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آتی۔ آئی فون کی چمکدار سکرین، برق رفتار پروسیسر، دیرپا بیٹری اور خوشنما ظاہری ڈیزائن، سب کچھ چین کی گود میں پلتا ہے، مگر تاج، امریکہ کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ امریکہ صرف خواب بُنتا ہے حالانکہ تعبیر کا کام چین کے ہاتھ ہے۔
یہ داستان صرف آئی فون تک محدود نہیں۔ آپ کا لیپ ٹاپ، جوتے، قمیص، گاڑی حتیٰ کہ روزمرہ کا استعمال ہونے والا ہر دوسرا سامان، جو بظاہر یورپ یا امریکہ کا لگتا ہے، اصل میں چین کی زمین پر تیار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کے فریب زدہ خواب اب بیداری کے لمحات دیکھ رہے ہیں۔ ٹیرف وار نے اُن خوابوں کو حقیقت کی سنگلاخ چٹان سے ٹکرا دیا ہے۔ پردہ اُٹھا ہے، اور بے لباسی کا عالم طاری ہے۔
یہ جنگ کسی دو ممالک کے درمیان تجارتی تنازعہ نہیں، یہ درحقیقت اُس فریب کا جنازہ ہے جو مغرب نے عشروں سے دنیا کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ دنیا کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ مغرب کی معیشتیں خود کفیل ہیں، ان کے کارخانے اپنی سرزمین پر چلتے ہیں، اور ان کی ترقی کا انحصار ان کی اپنی ذہانت پر ہے۔ لیکن جب ٹرمپ نے ٹیرف کا تازیانہ برسایا تو مغرب کا چہرہ عریاں ہوگیا۔
ایپل کی کہانی گویا اس پورے منظرنامے کی علامت ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جب ایپل نے چین میں قدم رکھا تو یہ محض چھوٹے سپلائرز کی مدد سے چند پرزے تیار کرواتا تھا۔ پھر وقت بدلا، 1997 کی مندی نے ایپل کو ہلا دیا، لیکن چین نے ہاتھ تھام لیا، اور 2001 میں شنگھائی میں ایپل کا پہلا دفتر کھلا۔ اس کے بعد فاکسکان کے ساتھ شراکت داری نے چین کو ایپل کی پیداواری ریڑھ کی ہڈی بنا دیا۔ آئی پوڈ، آئی میک اور پھر آئی فون ، سب کچھ چین میں بننے لگا۔
آج ایپل کے 187 سپلائرز میں سے 150 صرف چین میں واقع ہیں۔ گویا ایپل کا جیتا جاگتا وجود چین سے منسلک ہے۔ ایک ایسا انحصار جو طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ جب کووِڈ آیا اور چین نے خود کو بند کرلیا تو ایپل کی سانسیں رک سی گئی تھیں۔
یہ کہانی صرف ایپل تک محدود نہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، ایمیزون ، یہ سب اس طلسم کدہ چین کے مقروض ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چین میں کیا ایسا ہے؟
جواب سادہ ہے، مگر اثر گہرا کہ سستی مگر تربیت یافتہ محنت کش افرادی قوت، بہترین انفراسٹرکچر، نظم و ضبط اور سرکاری معاونت کا ایک مضبوط نظام۔ چین، جہاں کام صرف کام نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے، جہاں پیداوار ایک جذبہ ہے اور ترقی ایک اجتماعی خواب ہے۔
صدر ٹرمپ اپنی سیاسی سرشت کے مطابق، شاید کسی خوابِ مغرور میں تھے، جب انہوں نے ٹیرف کی تلوار اٹھائی۔ 245 فیصد تک کا ٹیرف ، گویا ایک ایسا تازیانہ، جس کی گونج صرف چین تک محدود نہیں رہی۔ دنیا ہل کر رہ گئی۔ اگرچہ ابھی ایپل کو وقتی ریلیف ضرور ملا ہے، لیکن ٹرمپ نے خبردار کیا کہ یہ سکون لمحاتی ہے۔ اب سیمی کنڈکٹرز کی گردن پر بھی تلوار لرز رہی ہے۔
یہ لڑائی صرف چین سے نہیں، بلکہ اس مغربی فریب سے ہے، جو خود کو دنیا کی پیداواری مشین سمجھتا تھا۔ حقیقت مگر کچھ اور ہے۔ امریکہ اور یورپ کی معیشتیں اب مینوفیکچرنگ کی نہیں، بلکہ سروس بیسڈ ہوچکی ہیں۔ فنانس، تعلیم، اور ٹیکنالوجی ان کا مرکز ہیں، جبکہ پیداواری مراکز کب کے چین منتقل ہوچکے ہیں۔ یہ منتقلی ترقی کی نہیں، بلکہ عاریت کی علامت ہے۔
جب کارخانے چین منتقل ہوئے تو روزگار بھی ساتھ ہی چلا گیا۔ امریکہ اور یورپ کے گودام خالی ہوگئے جبکہ چین کے شہر فیکٹریوں سے بھر گئے۔ چین نے وقت کی نبض پہچانی اور مہارت سے خود کو دنیا کا کارخانہ بنا لیا۔ وہ کارخانہ جہاں ہر شے تیار ہوتی ہے، وہ بھی جو آپ سوچ سکتے ہیں، اور وہ بھی جو آپ سوچنے سے قاصر ہیں۔
لیکن یہ جنگ چین کے لیے بھی آسان نہ تھی۔ چین نے جوابی وار کیا اور 125 ٹیرف امریکہ پر عائد کیے۔ نایاب معدنیات، جن پر چین کی اجارہ داری ہے، کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ گویا یہ جنگ صرف معاشی نہیں، معدنی بھی ہوچکی ہے۔
اب دنیا حیرت زدہ ہے، پریشان ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی راہ کیا ہے؟ ایپل، سامسنگ اور گوگل سب کے سب اب ویتنام، انڈیا اور انڈونیشیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لیکن چین کا نعم البدل ملنا آسان نہیں۔ نئے ممالک میں لاگت زیادہ اور معیار کم ہے۔ ادھر ویتنام پر بھی امریکی ٹیرف کی تلوار لٹک رہی ہے۔
امریکہ نے مینوفیکچرنگ کو واپس لانے کی بات کی ہے۔ لیکن باتیں کرنا اور بات ہے، فیکٹریاں لگانا اور۔ امریکہ کے وزیر تجارت کے خواب کہ "لاکھوں ورکرز آئی فون بنائیں گے"، حقیقت کی دنیا میں محض سراب نظر آتے ہیں۔ ایلی فریڈمین، جو ایپل کے مشیر رہے، صاف کہتے ہیں: "یہ خواب ہے، حقیقت نہیں"۔
دنیا بدل رہی ہے۔ سپلائی چینز کا جادو بکھر رہا ہے۔ نئے تجارتی مراکز جنم لے رہے ہیں، لیکن چین جیسا فائدہ کسی کو حاصل نہیں۔ چین نے پیداواری مہارت، نظم و ضبط، اور ایک قوم کی اجتماعی قوت کو تجارت کا رنگ دیا ہے۔
سوال ہے کہ مستقبل کیا ہوگا؟ شاید دنیا اب ایک منصفانہ تجارتی نظام کی طرف بڑھے، شاید "کم انحصار اور زیادہ تنوع" کی پالیسی اپنائے، لیکن اس کے لیے باہمی تعاون درکار ہوگا۔ ٹرمپ کی ٹیرف وار نے ایک آئینہ دکھایا ہے، جس میں خود امریکہ اور یورپ کا خود ساختہ ترقی یافتہ چہرہ نظر آتا ہے، جو اب کمزور، محتاج اور بے نقاب ہوچکا ہے۔
یہ جنگ سبق ہے اور سوال بھی کہ کیا ہم سیکھیں گے؟ کیا ہم اصلاح کریں گے؟ اور کیا ہم واقعی خود کفیل بن سکیں گے؟
یہ راستہ کٹھن ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ اگر دنیا "تم بناؤ، ہم بیچیں" کے تصور سے نکل کر "ہم مل کر بنائیں، ہم مل کر بانٹیں" کی طرف آئے، تو یہ گلوبل ولیج حقیقت بن سکتا ہے۔ ایک دنیا جو صرف تجارت کا مرکز نہ ہو، بلکہ انصاف کا مظہر ہو۔
ترقی کی راہیں سب کے لیے ہوں، اور بھرم کا پردہ ہمیشہ کے لیے چاک ہو جائے۔ یہی سچ ہے، یہی منزل، یہی خواب۔ ورنہ ٹیرف کا مہنگا نشہ تو وقتی ثابت ہوا ہے۔