عالمی سطح پر ہوا بازی کی صنعت ایک نئی ہلچل کا شکار ہو گئی ہے جب چین نے امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے نئے طیارے خریدنے اور زیر التواء طیاروں کی ترسیل روکنے کا اعلان کر دیا۔
فیصلہ 15 اپریل 2025 کو چین کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے سامنے آیا، جو امریکی حکومت کی جانب سے چینی مصنوعات پر 145 فیصد تک کے نئے ٹیرف لگانے کے ردعمل میں کیا گیا۔ یہ اقدام نہ صرف بوئنگ کے لیے بڑا دھچکہ ہے بلکہ عالمی تجارتی تعلقات میں بھی ایک نئی کشیدگی کا اشارہ ہے۔
ایئر چائنا، چائنا ایسٹرن، اور چائنا سدرن جیسے بڑے چینی ہوائی ادارے 2027 تک 179 بوئنگ طیارے خریدنے کا منصوبہ رکھتے تھے، یہ فیصلہ ان تمام منصوبوں کو منجمد کر دیتا ہے۔
فیصلے کے بعد بوئنگ کے حصص کی قیمت میں فوری کمی دیکھنے میں آئی۔ اسٹاک مارکیٹ کھلتے ہی کمپنی کے حصص 2.36 فیصد گر گئے، جب کہ قبل از بازار تجارت میں یہ کمی 4.6 فیصد تک جا پہنچی۔ 2025 کے آغاز سے اب تک کمپنی کی قدر میں 10 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔
یہ صورت حال نہ صرف بوئنگ بلکہ عالمی ہوا بازی کے شعبے پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئربس اور برازیلی کمپنی ’ایمبریئر‘ کو اس کشیدگی سے فائدہ ملتا نظر آ رہا ہے۔ ایمبریئر کے حصص میں 3.06 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ کمپنی ممکنہ طور پر چین میں بوئنگ کی جگہ لینے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔
دوسری جانب، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر چین پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین امریکہ کے کسانوں اور بوئنگ کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کر رہا ہے، اور یہ کہ ڈیموکریٹس کی حکومتوں کے تحت چین نے کبھی امریکہ کی عزت نہیں کی۔
ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ اگر یہ کشیدگی جاری رہی تو امریکہ اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت، جو 2024 میں 650 ارب ڈالر سے زائد تھی، مکمل طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ ہوا بازی کا شعبہ اب اس تجارتی جنگ کا ایک ’اسٹریٹجک میدانِ جنگ‘ بن چکا ہے۔
چین کی جانب سے بوئنگ طیاروں کی خریداری بند کرنا نہ صرف ایک معاشی فیصلہ ہے بلکہ عالمی سیاست میں ایک طاقتور پیغام بھی ہے۔ یہ صورتحال دنیا بھر میں ہوائی سفر، تجارت، اور کمپنیوں کے درمیان مسابقت کو متاثر کرے گی۔ آنے والے دنوں میں یہ کشیدگی کس سمت جائے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔