امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے ایک بار پھر سخت موقف اپناتے ہوئے دھمکی آمیز بیان دیا ہے۔
اتوار کو امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران نے جوہری معاہدہ نہ کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
امریکی صدر نے خبردار کیا کہ "ایران کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتا ہے، ورنہ اسے ایسی بمباری کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔"
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کی ترجیح ایران کے ساتھ معاملہ حل کرنا ہے لیکن اگر ایران نے مذاکرات سے انکار کیا تو وہ سیکنڈری ٹیرف سمیت دیگر اقدامات اٹھائیں گے۔
اس بیان سے قبل ٹرمپ نے ایران کو ایک خط بھیجا تھا جس میں جوہری پروگرام پر بات چیت کی تجویز دی گئی تھی مگر ایرانی قیادت نے براہِ راست مذاکرات کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق ایران کے جوہری عزائم کو روکنا ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں فوجی آپشنز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی دباؤ کو "دھوکہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح کے دھمکیوں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
ایرانی صدر کا ردعمل
ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کا اپنے حالیہ بیان میں کہنا تھا کہ جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کا راستہ کھلا ہے۔
مسعود پزیشکیان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ کبھی بھی مذاکرات کے راستے بند نہیں کئے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ امریکا نے ہر بار ایران کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی، امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیلئے اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں امریکا کا طرز عمل طے کرے گا وہ بات چیت میں کتنا سنجیدہ ہے۔