امریکی ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث ایک سال کے دوران ایک ہزار روپے کی قدر صرف 660رہ گئی۔
تفصیلات کے مطابق آمدن کم اور اخراجات زیادہ، تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی جنگ میں ہار گیا۔ گزشتہ ایک سال میں عوام کی قوت خرید میں 34 فیصد تک کمی آئی۔ ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث ایک ہزار روپے کی قدر صرف 660 رہ گئی۔
منہ زور مہنگائی نے ایسا رگڑا لگایا کہ غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی پس گیا، سفید پوشی کا بھرم ٹوٹا اور ایک سال میں مزید سوا کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ اس وقت تقریبا 40 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
ایک سال میں ڈالر 82 روپے مہنگا ہوا جبکہ پاکستان میں فی کس آمدن میں 198 ڈالر کی کمی ہوگئی۔ مہنگائی نے 34 فیصد کی بلند سطح تک پہنچ کر جلتی پر تیل کا کام کیا، عوام کیلئے صحت،خوراک اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنا ممکن نہ رہا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ایک نوکری سے کام نہیں چلے گا، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ ۔ یکم نومبر سے گیس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہوگا۔ تو لوگوں کی جو آمدنی ہے وہ اخراجات سے مطابقت نہیں رکھ پائے گی اور مجبورا انہیں ایک سے زیادہ ملازمت جو ہے وہ کرنا پڑ رہی ہوگی۔
اقتصادی ماہرین نے عوام کے معاشی تحفظ کیلئے فی کس آمدن میں اضافہ ناگزیر قرار دے دیا ۔ کہا مسائل کی دلدل سے نکلنے کا واحد حل سالانہ 5 سے 7 فیصد پائیدار معاشی ترقی ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ آپ اگر جائزہ لیں 2000 سے لے کر 2022 تک تو آپ کو اندازہ ہوگا۔ پاکستان کا رئیل ایوریج فی کس گروتھ ریٹ 1.7 فیصد پر تھا، پاکستان کو پائیدار راستے پر ڈالنے کیلئے مہنگائی کو لو سنگل ڈیجیٹ پر رکھنے کیلئے پاکستان کی گروتھ کو مستقل طور پر ایک دہائی میں سات فیصد سے اوپر لے جانے کیلئے ہمیں یقینا سب سے پہلے اپنا فیڈرل مالیاتی فریم ورک ٹھیک کرنا ہے۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مستقل اقتصادی پالیسیوں کے تسلسل کیلئے مضبوط جمہوری حکومت ناگزیر ہے۔