فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب الجواب دلائل مکمل نہ کر سکے۔ دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ڈی ون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے نزدیک آئین سپریم ہے، پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون سے سویلینز کے فوجی ٹرائل کی کھڑکی کھولی گئی مگر یہ آئین میں درج نہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون میں سویلینز آ گئے تو وہ آرٹیکل 8(3) کے دائرہ کار میں بھی آئیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب میں ایف بی علی کیس باربارپڑھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ججز کا دل چاہتا تھا کہ وہ ٹرائل کالعدم قرار دیں، ایسا لگتا ہے ججز نے ایف بی علی کیس میں ففٹی ففٹی فیصلہ کیا، ایسا کیسےہوسکتا ہے کہ جج کہیں کہ سویلینز کا فوجی ٹرائل آرٹیکل 8(3) میں بھی نہیں آتا اوربنیادی حقوق بھی مل رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں نہ کوئی بنیادی حقوق لیے گئے نہ دیئے گئے، اگراپیل کا آزادانہ فورم ہو یا کورٹ مارشل عدالتوں کے ماتحت آئے تو اسکی اساس ختم ہو جائے گی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سویلین کا فیلڈ کورٹ مارشل کرنا فوج کا انا کا مسئلہ نہیں ہے، کورٹ مارشل کرنے کا مقصد دفاع پاکستان اورملکی سیکیورٹی ہے، محض افواہوں پر عدالت کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
سلمان اکرم راجہ عدالت سے استدعا کی کہ خواجہ حارث صاحب کےجواب الجواب کے بعد مجھے ایک دن دیں، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جواب الجواب کے بعد آپکو وقت نہیں دیں گے، ہماری کوشش ہوگی سماعت مکمل کرنےکےبعد فوری شارٹ آرڈر جاری کریں۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ چلیں میں پھر تحریری معروضات جمع کرا دوں گا۔