رمضان المبارک، جو صبر، برداشت اور رحمت کا مہینہ ہے، لیکن اس مبارک ماہ میں خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات پیش آئے جو معاشرتی بگاڑ اور ہماری اجتماعی بے حسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں صبر، درگزر اور نرمی کا درس دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے، ہماری سوسائٹی میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ معمولی تکرار اور چھوٹے تنازعات جان لیوا جھگڑوں میں بدل رہے ہیں۔
نوشہرہ میں ایک نوجوان نے معمولی تکرار پر اپنے ہی ماں، باپ اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پشاور میں وٹس ایپ گروپ سے نکالے جانے پر گروپ ایڈمن کو قتل کر دیا گیا۔ انڈے لڑانے جیسے معمولی تنازعے پر فائرنگ ہوئی، جس میں ایک نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا اور تین دیگر زخمی ہو گئے۔ سوات میں پالتو کتے کے تنازعے پر قتل ہوا، جبکہ صوابی میں ایک عام سی بحث کے نتیجے میں نوجوان کو شدید زخمی کر دیا گیا۔
یہ تمام واقعات ایک ایسے مہینے میں پیش آئے جب ہمیں برداشت، امن، محبت اور بھائی چارے کا درس دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ اس حد تک عدم برداشت اور غصے میں کیوں ڈوب چکا ہے؟ ہم کیوں معمولی باتوں پر ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟
اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی وجہ ذہنی دباؤ اور غصے پر قابو نہ پانے کی عادت ہے۔ ہمارے سماج میں غصہ اور جذباتی ردعمل اب عام ہو چکا ہے، اور لوگ کسی بھی معاملے پر تحمل اور گفتگو کی بجائے فوری انتقامی کارروائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ اختلافات کو کیسے سلجھایا جائے، کیسے اپنے غصے پر قابو پایا جائے اور کیسے دوسرے کی رائے کو برداشت کیا جائے۔
تیسری بڑی وجہ سوشل میڈیا اور موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی جذباتیت ہے۔ وٹس ایپ گروپ سے نکالا جانا ایک اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اس پر قتل کر دیا جائے، لیکن ہم نے اپنی حساسیت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ چھوٹی سی توہین یا مزاح بھی ہماری انا کو چوٹ پہنچا دیتا ہے۔اس کے علاوہ، قانون کی کمزوری بھی ان جرائم کے بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔ جب مجرموں کو سخت سزائیں نہیں ملتیں، تو ایسے واقعات مزید بڑھتے ہیں۔ اگر قانون اپنی جگہ مضبوط ہوتا اور جرم کرنے والے فوری پکڑے جاتے، تو لوگ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے۔
رمضان المبارک میں ہونے والے یہ دلخراش واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم بطور قوم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ہم اپنے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں جو صبر، برداشت اور درگزر کا درس دیتے ہیں؟یہ وقت ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی اصلاح کریں۔ ہمیں اپنی اگلی نسل کو برداشت، صبر اور امن کا سبق دینا ہوگا۔ اسکولوں اور گھروں میں بچوں کو سکھانا ہوگا کہ جھگڑوں کو کیسے پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ ہمیں خود پر قابو پانے، غصے کو کم کرنے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔