سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے مقدمے کے وکلا کو نوٹسز جاری کردیئے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر منگل کو سماعت کرے گا۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہوں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہوں گے۔
یاد رہے کہ 17 اکتوبر کو نگران وفاقی حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا گیا تھا۔ نگران وفاقی حکومت کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت عدالت میں اپیل دائر کی گئی ہے جس میں نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا کی گئی ہے
وفاقی حکومت کی جانب سے اپیل میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔ اپیل میں کہا گیا کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ وفاقی حکومت کی اپیل میں فیڈریشن، قومی احتساب بیورو ( نیب ) اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کو فریق بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کی آئینی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس پر فیصلہ دے دیا تھا۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کردیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دے دیا، نیب کو 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم بھی جاری کردیا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا تھا، چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جب کہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر حتمی فیصلے تک نیب کیس پر کارروائی روکنے یا فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے دے چکے ہیں۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دیا۔ فیصلے میں پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔ اکثریتی فیصلے میں بے نامی کی تعریف تبدیل کرنے، کرپشن کے الزام پر بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کے بارے میں ترامیم بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔