سفارتی پروٹوکول میں سب سے پہلےمختلف امور طے کئے جاتے ہیں تاکہ بین الاقوامی تعلقات میں ہم آہنگی اور عزت و احترام برقرار رہے کسی بھی مہمان یعنی صدر، وزیر اعظم یا دو اعلیٰ حکام کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر گارڈ آف آنر اور استقبالیہ تقریب ترتیب دی جاتی ہے جبکہ رہائشی انتظامات بھی پہلے سے طے ہوتےہیں اس کے بعد ملاقاتوں اور اجلاسوں کا شیڈول، مذاکرات کے ایجنڈے اور دستخط کئے جانے والے معاہدوں پر بھی مشاورت ہوتی ہے۔
سرکاری تقریب میں خطاب کے آداب، نشستوں کی ترتیب اور لباس کے ضوابط طے کیے جاتے ہیں، تحائف کے انتخاب میں ان کی علامتی اہمیت اور سفارتی روایات کو مدنظر رکھا جاتا ہےسیکیورٹی انتظامات، بشمول وی وی آئی پی مہمانوں کے حفاظتی اقدامات اور سفر کے دوران سیکیورٹی پروٹوکول پہلے سے طے ہوتے ہیں میڈیا کوریج کے لیے پریس کانفرنس گفتگو کے نکات اور حساس موضوعات پر بریفنگ کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔
اگر دو اعلیٰ حکام یا سربراہانِ مملکت کی میٹنگ ہوتی ہے تو اس میں بنیادی طور پر کچھ اہم چیزوں کو لازمی مدنظر رکھاجاتا ہے سب سے پہلےدونوں فریقین کو ملاقات کا ایجنڈامعلوم ہونا چاہیےدوسرے نمبر پر وقت کی پابندی کو یقینی بنانا چاہیےتیسرے نمبر پر لب و لہجہ اور گفتگو کا انداز شائستہ، سفارتی اور غیر جذباتی ہونا چاہیے، چوتھاباڈی لینگویج پر دھیان دینا ضروری ہےباڈی لینگویج میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، مناسب ہاتھ ملانا اور سنجیدہ لیکن خوشگوار رویہ رکھناچاہئے۔
پانچواں ایجنڈے میں تحائف یا دستاویزات کا تبادلہ شامل ہونا چاہیئے، نوٹس اور ریکارڈ کیپنگ کا بانتظام ہونا چاہیے اگر ملاقات میڈیا کے سامنے ہونی ہے تو سب سے پہلے بیانات اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط ضروری ہے ملاقات کے دوران ثقافتی اور سفارتی آداب کا احترام بھی لازمی ہوتا ہےاگر ایسی چیزوں کو اگنور کر دیا جائے تو ملاقاتیں خوش اسلوبی کی بجائے متازع بن جاتی ہیں ۔
یوکرینی صدر ولادیمر زیلنسکی نے کچھ سفارت آداب میں غلطیاں برتی ہیں یہ اصولی چیز ہے کہ کوڈ ڈریس لازمی ہوتا ہے جب دو سربرہان مملکت کی ملاقات ہوتی ہے توکوڈ ڈریس فارمل ہوتا ہے ڈریس کوڈ کا فیصلہ ملاقات کی نوعیت،مقام اور سفارتی پروٹوکول کے مطابق طے کیا جاتا ہے، امریکی صدر نے کلاسک سفارتی و صدارتی لباس پہناہوا تھا جو عالمی رہنما عام طور پر رسمی ملاقاتوں میں پہنتے ہیں جبکہ یوکرینی صدر کیژول ڈریس پہن کر وہاں پہنچ گئےجو جنگ کی حالت کی نشاندہی کرتا ہے،ان کو کلاسک ڈریس کوڈ پہننا چاہیے تھا یا اپنے کلچر کے ڈریس میں چلے جاتے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ جس ڈریس کوڈ میں گئے ہیں وہ ملاقات کیلئے غیرمناسب تھا۔
دوسراجوایجنڈا طے کیا جاتا ہے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہےاس موضوع سے ہٹ کر بات کرنا سفارتی آداب کیخلاف ہے یوکرینی صدر وہاں معدنیات کے ذخائر سے ملنے والی آمدنی کا پچاس فیصد امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے معاہدے پر دستخط کرنے گئے تھے لیکن انھوں نے وہاں روسی صدر کو قاتل کہہ دیا جو سفارتی آداب بالکل کیخلاف ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ آپ ملک کا نام لے سکتے ہیں ملکی شخصیت کا ہے نہیں لیکن یوکرینی صدر نے بائیڈن انتظامیہ کی سپورٹ میں ہر بار روسی صدر کا نام لیا لیکن روس کا نام نہیں لیا۔
یوکرینی صدر نے ایجنڈا سے ہٹ کر گفتگو شروع کر دی جس سے سفارتی آداب کیخلاف ورزی کے علاوہ تمام گفتگو متنازع بن گئی، یوکرینی صدر نے وقت کی پابندی بھی نہیں وہ میٹنگ کے جاری کئے گئے وقت کے مطابق وائٹ ہاؤس میں نہیں پہنچ سکے پھر وہ لب و لہجہ کو کنٹرول نہیں کر سکے اور جذباتی ہوگئے جذبات عام انسان کو کھا جاتے ہیں تو ملاقات کے وقت جذباتی ہونا میٹنگ کو خراب کرنے کے مترادف ہوتا ہےوہ جذبات میں آگئے کہ روس نے ان کا کتنا نقصان کیا ہے اور وہ لب ولہجہ بھول گئے جس سے معاملات بہتری کی بجائے شدت اختیار کر گئے۔
امریکی صدر نے بھی کئی غلطیاں کیں جو سفارتی آداب کیخلاف تھیں امریکی صدر کی غلطی سفارتی آداب میں بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوتی لیکن یہاں ٹرمپ نے بھی کافی غلطیاں کی ہیں، سب سے پہلے وہ یوکرینی صدر کے استقبال کے دوران مصافحہ سے پہلے یوکرینی صدر کیساتھ ڈانٹنے والا انداز شروع کر دیا، اور باڈی لینگویج میں کافی لچک پیدا کر دی، دوسرے نمبر پر یوکرینی صدر کے موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنے پر ٹرمپ نے الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں کیا بلکہ تمسخر اڑایا اور جذبات ان پر حاوی ہو گئے میڈیا گیلری میں گفتگوکرتے وقت الفاظ کا چناؤ بہت اہم ہوتا ہے لیکن صدر بھول گئے کہ وہ میڈیا کے سامنے ہیں اور جن پر الفاظ کس رہے ہیں وہ ایک ملک کا صدر ہے۔
ٹرمپ نے سب سے بڑی غلطی امریکی نائب صدر کو ہم منصبوں کےدرمیان میں بولنے پر اجازت کی کر دی، اور امریکی نائب صدر نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک ملکی صدر کو احمق بول دیا، یہ گفتگو عالمی رہنماؤں کے درمیان سفارت کاری کی بے بسی اور ڈکٹیٹر سوچ کی حامل ہے، جس سے دنیا بھر میں سفارتی سطح پر ہونے والی چیزیں غیر یقینی کا سبب بنتی ہیں۔ پھر امریکی صدر نے یوکرینی صدر کو اوول آفس کے بعد کھانے پر نہیں بلایا،یہ بھی ایک غیر مناسب رویہ تھا جو سفارتی آداب کی ترجمانی نہیں کرتا اس کے بعد جذبات میں آ کر اس کو وائٹ ہاؤس سے نکل جانے کو کہہ دیا کسی بھی مہمان کی اتنی توہین آج تک کسی بھی طےشدہ پروٹوکول میں نہیں ہوئی جو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کی کر دی۔
اوول آفس میں گفتگو کے شدت اختیار کرنے سے عالمی سطح پر شرمندگی (International Embarrassment) کا بعث بنے ہیں کیونکہ اوول آفس ایک علامتی مقام ہے جہاں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے اہم فیصلے کئے جاتے ہیں گفتگو میں شدت اختیار کرنا مریکی سفارت کاری کیلئےشرمندگی اور غیر ذمہ داری کا تاثر دیتا ہے اس کے بعد سفارتی بحران (Diplomatic Falloutکا سبب بھی پیدا ہوگیا ہے یورپی ممالک نے یوکرینی صدر کا ساتھ دینے کا اعلا ن کر دیا ہے۔
امریکی قیادت پر سوالیہ نشان (Questioning U.S. Leadership) کھڑے ہوگئے ہیں اتحادی ممالک یہ سوچتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنے قریبی اتحادیوں کے ساتھ بھی ایسے پیش آتا ہے تو دیگر ممالک کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا؟اگر وہ یہ سوچتے ہیں تو یہ امریکی سفارت کاری کیلئےعدم استحکام اور غیر یقینی کی علامت ہے مستقبل کی میٹنگز پر اثر (Impact on Future Meetings)پر بہت سے اثرات مرتب ہوئے ہیں اب اس واقعے کے بعد زیلینسکی اور ٹرمپ کی مستقبل کی ملاقاتیں زیادہ سخت اور محتاط ہو جائیں گی دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ کو تعلقات کو سنبھالنے کے لیے بیلنسنگ ایکٹ کرنا پڑے گا تاکہ مزید تنازعات سے بچا جا سکے۔