کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ قتل کیس کے مرکزی ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 5 روز کی توسیع کرتے ہوتے پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ عدالت نے ملزم ارمغان کا میڈیکل کروانے کا حکم بھی جاری کیا۔
کیس میں اہم پیش رفت کے بعد دو گواہوں نے ارمغان اور شیراز کو بطور ملزم شناخت کر لیا ہے اور اس کے علاوہ کراچی پولیس چیف کو وزیراعلیٰ ہاؤس طلب کیا گیا جہاں کیس میں پیشرفت پر بریفنگ دی جائے گی۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران ملزم ارمغان نے پولیس پر ناروا سلوک کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اسے کھانا نہیں دیا جا رہا، پولیس اسے تھانے لے جا کر اس کا مذاق اڑاتی ہے اور وہ دس دن سے واش روم نہیں گیا جبکہ وہ مزید پولیس کسٹڈی میں نہیں رہ سکتا۔
جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ دس دن تک واش روم نہ جانا کیسے ممکن ہے؟۔
پولیس نے عدالت میں ملزم ارمغان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ جمع کرائی اور کیس کے دو اہم گواہوں نے اپنے بیانات میں ملزمان کو شناخت کیا۔
پہلے گواہ غلام مصطفیٰ، جو ارمغان کا ملازم تھا، نے بتایا کہ ارمغان نے اس سے خون کے دھبے صاف کروائے اور کہا کہ گھبراؤ نہیں، آرام کرو، لیکن وہ ساری رات خوفزدہ رہا اور سو نہ سکا۔
دوسرے گواہ زوہیب نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو بتایا کہ 5 جنوری کو وہ ارمغان کے کپڑے لے کر گھر کی پہلی منزل پر گیا تو وہاں ایک لڑکی موجود تھی، اگلے دن 6 جنوری کو مصطفیٰ بلیک گاڑی میں آیا کچھ دیر بعد گالی گلوچ ہوئی اور تین گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی جس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
زوہیب نے اوپر جانے کی کوشش کی تو ارمغان نے سی سی ٹی وی میں دیکھ کر روک دیا اور کہا کہ سکون کرو، کچھ نہیں ہوا، بعد میں پانی کی بوتلیں منگوا کر خون صاف کروایا گیا۔
دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب کھڑکیاں بجنے کی آوازیں آئیں جہاں ارمغان اور شیراز موجود تھے، اس کے بعد ارمغان نے گواہوں کو چھٹیوں پر بھیج دیا۔
پولیس نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ ارمغان کا والد کامران قریشی گواہوں کو دھمکیاں دے رہا ہے جس پر عدالت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دھمکی دینے والے کو ہتھکڑی لگائی جائے، تاہم وکلا نے ملزم کے والد کو سمجھا کر بٹھا دیا۔