پاکستان میں فروری کے دوران کم شدت کے تقریباً 20 زلزلوں کے جھٹکے محسوس کیے گئے، اگرچہ زلزلوں کی بار بار آنے والی اطلاعات لوگوں کو پریشان کر دیتی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معمولی زلزلے کی سرگرمیاں دراصل ’سلور لائننگ‘ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے جھٹکے پلیٹوں کے اندر جمع شدہ توانائی کو مسلسل خارج کرکے زیادہ شدت والے زلزلوں کو روکتے ہیں۔
ہمالیائی خطے میں بڑے زلزلے کی سرگرمی تقریباً 100 سال کے سائیکل پر ہوتی ہے۔ اس خطے میں آخری بڑے زلزلے 2005 اور 2015 کے زلزلے تھے، پہلے زلزلے نے شمالی پاکستان میں تقریباً 80 ہزار افراد کی جانیں لیں، جب کہ بعد میں پڑوسی ملک افغانستان میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔
ماہرین کے مطابق 80 سال سال قبل کوئٹہ شہر میں 7 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے جس میں تقریباً 35 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق بڑے واقعات کے درمیان آنے والے معمولی جھٹکے رفتار کو توڑ دیتے ہیں، جس سے توانائی کا اچانک اور بڑا اخراج نہیں ہوتا۔
پاکستان 3 بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں عرب، یورو ایشین اور انڈین پر واقع ہے جو ایک دوسرے کو اٹھاتی ہیں، زیر کرتی ہیں اور توانائی اور حرکت فراہم کرتی ہیں۔
سندھ اور پنجاب انڈین پلیٹ پر واقع ہیں، جب کہ بلوچستان کے مغربی حصے اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے یوریشین پلیٹ پر واقع ہیں، جو بنیادی طور پر ایرانی سطح مرتفع پر مشتمل ہے اور انڈین پلیٹ کو چھوتا ہے۔
اس سے پاکستان کے علاقوں میں 5 زلزلے کے علاقے سامنے آتے ہیں، متعدد فالٹ لائنز کے چوراہے کا مطلب ہے کہ اس خطے میں ٹیکٹونک حرکات اکثر ہوتی رہتی ہیں۔