مادری زبانوں کا 25 واں سالانہ بین الاقوامی دن آج منایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں 8 ہزار سے زائد زبانیں تسلیم شدہ جبکہ پاکستان میں تعداد 80 کے قریب ہے جن میں سے بیشتر ختم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔ یہ عالمی دن منانے کا مقصد یہی پیغام دینا ہے کہ مل جل کر ایک دوسرے کی ماں بولی کا تحفظ کیا جائے کیونکہ زبان مختلف ہے تو کیا ہوا؟ غم و خوشی اور دکھ درد تو سب کے سانجھے ہیں۔
آج دنیا بھر میں مادری زبان کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان تو اردو ہے لیکن ہمارا ملک ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جس میں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں لگ بھگ ساڑھے 8 ہزار زبانیں رائج ہیں جبکہ پاکستان بھی اسی کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔
اردو ، انگریزی اور سندھی کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے، قومی رابطے کی زبان اردو جبکہ علاقائی مادری زبانوں کے طور پر 37 فیصد فیصد بولنے والوں کے ساتھ پنجابی پہلی، 18 فیصد سے زائد بولنے والوں کے ساتھ پشتو دوسری لگ بھگ ساڑھے 14 فیصد بولنے والوں کے ساتھ سندھی تیسری بڑی زبان ہے۔
ملک میں 12 فیصد آبادی کی زبان سرائیکی جبکہ 3.38 فیصد لوگ بلوچی بولتے ہیں۔ 70 سے زائد دیگر میں سے بیشتر قدیم زبانیں معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار ہے۔
چیئرپرسن اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف کا کہنا ہے کہ مادری زبان ہوتی کون سی ہے؟ ایک تو تاریخی طور پر مادری زبان ہوتی ہے ایک ماحول کی زبان ہوتی ہے جیسے اب ہمارے ماحول میں اردو ہمارے ماحول کی زبان ہے جو ہر ایک پاکستان کے خطے میں ہر خطے میں بولی جانے والے رہنے والے لوگ اس زبان سے میں اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کل 74 زبانیں بولی جا رہی ہیں اور ان زبانوں میں سے کچھ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
سابق سربراہ انڈس کلچر فورم منور حسن کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی ترویج ہوئی تو اس سے کچھ زبانیں جو کہ اس وقت اتنی زیادہ ٹیکنیکلی آگے نہیں تھی، ان کے معدومی کا خطرہ پیدا ہو گیا تب یونیسکو نے یہ محسوس کیا کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہر زبان ایک بہت ہی مایا ناز اور بہت ہی قیمتی سرمایہ رکھتی ہے۔
شہر اقتدار میں پاکستان کی زبانوں کا 3 روزہ دسواں سالانہ میلہ آج سے سج رہا ہے تو پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کا افتتاح بھی آج سے ہونے جا رہا ہے، جس میں 74 سے زائد مقامی زبانوں کے رسم الخط اور تحریری و دیگر مواد پیش کیا جائے گا۔