سپریم کورٹ نے ہراسانی کو صنفی عدم مساوات کی وجہ قرار دے دیا۔
دفاترمیں ہراسانی کےخلاف جسٹس منصورعلی شاہ کا اہم فیصلہ جاری کردیا گیا۔ لیڈی ڈاکٹر کی شکایت پرجبری ریٹائرکیے گئے ڈرائیور کی اپیل خارج کردی گئی۔
فیصلے کے مطابق کام کی جگہ پر محفوظ ماحول تمام مرد و خواتین اور ٹرانسجینڈرز کا آئینی حق ہے، عدالت نے ہراسانی کیخلاف پاکستان کی بین الاقوامی کنونشن کی توثیق نہ کرنے پر بھی سوال اٹھادیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ کام کی جگہ پر ہراساں کرنا محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں، صنفی مساوات کے گلوبل انڈیکس میں پاکستان 146ممالک میں 145ویں نمبر پر ہے، تشویشناک اعداد و شمار خواتین کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہیں۔
فیصلے کے مطابق ہراسانی افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کو محدود اور معاشی خلا کو بڑھاتی ہے، امریکی سپریم کورٹ نے یرغمالی ماحول کو بھی ہراسانی قرار دیا، ہراسانی کے خاتمے کیلئے پاکستان کاعالمی قانونی فریم ورک کے ساتھ چلنا لازم ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہراسانی کے خلاف پاکستان میں 2010 کا ایکٹ موجود ہے، یہ ایکٹ ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کی بنیاد فراہم کرتا ہے، پاکستان نے ابھی تک عالمی لیبرآرگنائزیشن کے وائلنس اینڈ ہراسمنٹ کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ یہ کنونشن ہراساں کرنے کی روک تھام کا عالمی معیار طے کر چکا۔
کنونشن کی توثیق پاکستان کے وقار، مساوات اور عدم امتیاز کی آئینی ضمانتوں کو تقویت دے گی،عدالت کا فیصلے کی کاپی اٹارنی جنرل کو بھیجنے کا حکم دیدیا۔ اٹارنی جنرل آئی ایل او کنونشن کی توثیق کا معاملہ متعلقہ حلقوں کے سامنے اٹھائیں۔
خیال رہے کہ ڈرائیور نے ہراسانی میں سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، ڈرائیوپر پر خاتون ڈاکٹر کی کردار کشی کا الزام تھا۔ لیڈی ڈاکٹر کی شکایت پرجبری ریٹائرکیے گئے ڈرائیور کی اپیل خارج کردی گئی۔