فتنہ الخوارج ہتھیار ڈال دیں تو ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں ۔ یہ الفاظ ہیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے جو اُنہوں نے چند روز قبل طلبا سے گفتگو کرتے ہوئے کہے۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ فتنہ الخوارج کس شریعت اور دین کی بات کرتے ہیں ۔ دین اسلام نے خواتین کو عزت اور مقام دیا۔ یہ کون ہوتے ہیں چھیننے والے ۔ ہم کسی گمراہ گروہ کو اس ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنے کی اجازت نہیں ۔ آرمی چیف نے یہ خطاب ایک ایسے وقت کیا ہے جب پاک فوج ملکی سرحدوں پر دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے ۔ روزانہ ہمارے بہادر فوجی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں بھی ایک لیفٹینٹ محمد حسان سمیت چار جوانوں نے وطن پر جان نچھاور کی ۔ اس سے پہلے ایک جھڑپ میں سولہ فوجی شہید ہوئے تھے،ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو شہادتوں کا یہ سلسلہ لامحدود ہے۔
اس قدر قربانیاں دینے کے باوجود بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی ایک طبقہ پاک فوج کے خلاف مسلسل زہر اُگل رہا ہے۔ اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اس سے سوائے ملک دشمنوں کے کسے فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ماضی میں فوج کے سیاسی کردار سے ممکن ہے ہمیں بھی اختلاف ہو، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس وقت دہشت گردوں ، شرپسندوں اور فتنہ الخوارج کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی دیوار باقی ہے اور وہ ہے ہماری مسلح افواج، خدانخواستہ جس دن یہ دیوار گرگئی، ہمارے ملک کو بھی تباہ ہوتے دیر نہیں لگے گی
حیرت تو یہ ہے کہ سفاک دہشت گرد پڑوسی ملک میں بیٹھ کر کارروائیاں کر رہے ہیں جو خود کو اسلامی کہلواتا ہے، لیکن کیا اسلام کی الف ب کا بھی پتا ہے؟ اسلام کی تعریف جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی ہے وہ یہ کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔‘‘
لہٰذا کسی فرد کے اسلام لانے اور مسلمان ہو جانے کا مطلب سلامتی کے دروازے میں داخل ہو جانا ہے یہاں تک کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہو جائیں ۔ اسلام کی ساری تعلیمات امن،محبت،بھائی چارے،عفودرگزر پر مبنی ہیں، اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے، جو پوری دنیا کو رزق عطا فرماتا ہے، چاہے کوئی اُسے مانے یا نہ مانے، اور اُس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں، جنہوں نے کبھی اپنے دشمن کے لیے بھی بددعا نہیں کی، دوسری طرف ہم ان نام نہاد مسلمانوں کا طرز عمل دیکھیں تو سوائے وحشت کے کچھ نظر نہیں آتا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طویل خانہ جنگی کے بعد یہاں سے امن،محبت اور اخلاق کے چشمے پھوٹتے، دنیا احترام انسانیت کا عملی نظارہ دیکھتی لیکن اس کے برعکس دنیا اُس ملک کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے رہی ہے، خواتین کے ساتھ جو ان کا رویہ ہے وہ نہ صرف افغانستان بلکہ دین اسلام کی بھی بدنامی کا سبب بن رہا ہے
حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ جاری ہوئی جس کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جو پے در پے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، اُنہیں براہ راست کابل سے مالی اور لاجسٹک مدد ملتی رہتی ہے۔ چھ ماہ کے عرصے کا احاطہ کرنے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حیثیت اور طاقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔" پاکستانی حکام مسلسل افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کو لگام دے لیکن اُن پر جوں تک نہیں رینگ رہی لیکن انشاء اللہ رب کی مدد اور نصرت سے انہیں پہلے بھی شکست ہوئی اور آئندہ بھی شکست ہوگی
آپ پچھلے دس پندرہ برسوں پر اگر نظر دوڑائیں تو پاکستان نے وہ وقت بھی دیکھا جب کوئی دن دھماکے سے خالی نہیں جاتا تھا، اسکول، اسپتال، بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، بازار حتی کے مساجد تک ان سفاک دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہ تھے، لیکن سلام ہو ہماری بہادر افواج پر جس نے بڑی دلیری سے اس ناسور کا مقابلہ کیا اور انہیں شہر، دیہات اور قصبوں سے نکال کر سرحد پار دھکیل دیا، آج ہمارے کھیل کے میدان آباد ہیں، 29سال بعد کرکٹ عالمی میلہ چیمپئنز ْٹرافی کی صورت میں منعقد ہے، معشیت مستحکم ہوچکی ہے،شرح سود اور مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، روپے کی قیمت میں ٹھہراو آچکا ہے، یہ ساری کامیابی دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کار ممالک کو ہضم نہیں ہو رہیں
زمینی محاذ پر پے درپے شکستوں کے بعد اب یہ لوگ سوشل میڈیا پر مسلح افواج اور پاکستانی اداروں کے خلاف زہر اُگلنے میں مصروف ہیں، بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا اکاونٹس سے نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندا کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے ہماری کچھ سیاسی جماعتیں بھی ان کے مذموم مقاصد کو میں استعمال ہو رہی ہیں، ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا ہوگا کہ کہیں وہ کسی کے مذموم سیاسی عزائم کا ایندھن تو نہیں بن رہے؟ کہیں اُن کے اس عمل سے دہشتگردوں کو فائدہ تو نہیں ہو رہا اور ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں،اپنے وقتی سیاسی مفاد کے بجائے اس ملک کا سوچیں ۔ اپنے کارکنوں کو ایجوکیٹ کریں
وقت آگیا ہے کہ خارجی دہشت گردوں سے مذاکرات کی رٹ لگانے کے بجائے آپریشن ضرب عضب کی طرح ان پر غضب ڈھا دیا جائے، آپریشن ردالفساد کی طرح اس فتنے کو اس طرح جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے کہ ان کی داستاں تک نہ رہے داستانوں میں، ہاں اگر یہ دہشت گرد اپنی شرپسند انگیز کارروائیوں سے باز آجائیں اور ہتھیار پھینک دیں، تو پھر جس طرح آرمی چیف نے کہا کہ ریاست بھی ان پر رحم کا سوچ سکتی ہے، لیکن اگر وہ باز نہیں آتے تو پھرکوئی ضرورت نہیں ان پر رحم کرنے کی ۔ ان دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اگر شہادت کی موت نصیب ہوجائے تو سودا بُرا نہیں۔