پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی کے بعد مقامی طور پر اسمبل گاڑیوں کی قیمت میں کمی ہوئی تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جس تیزی سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا اسی کے حساب سے مقامی سطح پر گاڑی اسمبل کرنیوالوں نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا، اب جب ڈالر کی قیمت میں کمی ہورہی ہے تو اس کا فائدہ صارف تک پہنچنا چاہئے لیکن یہ فائدہ پہنچتا نظر نہیں آرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کم بجٹ میں گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد پریشانی کا شکار ہیں، مقامی سطح پر تیار ہونیوالی چھوٹی گاڑیوں سمیت امپورٹ کی جانیوالی گاڑیوں کی قیمت میں 8 سے 20 لاکھ روپے تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی اس حساب سے نہیں کی گئی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت 325 روپے تک گئی تھی، جس کو جواز بناتے ہوئے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، اس وقت مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 280 روپے تک آگیا ہے، اس طرح ڈالر کی قیمت میں تقریباً 40 روپے سے زائد کی کمی ہوئی ہے لیکن اس حساب سے گاڑیوں کے ریٹ کم نہیں کئے گئے۔
کار ساز کمپنی ٹویوٹا نے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں 13 لاکھ روپے سے زائد تک کی کمی کردی۔ کمپنی کے مطابق ٹویوٹا یارس 1.3 جی ایل آئی (ایم ٹی) کی قیمت 44 لاکھ 99 ہزار سے کم ہو کر 43 لاکھ 99 ہزار ہوگئی ہے، اسی طرح یارس 1.5 اے ٹی آئی وی ایکس (ایم ٹی) کی قیمت ایک لاکھ 20 ہزار روپے کی کمی کے بعد 53 لاکھ 9 ہزار ہوگئی، کرولا 1.6 ایم ٹی کی قیمت میں دو لاکھ روپے کی کمی ہوئی، جس کے بعد اِس کی نئی قیمت 59 لاکھ 69 ہزار ہوگی، اسی طرح کرولا 1.6 سی وی ٹی میں 2 لاکھ 10 ہزار کی کمی ہوئی، جس کے بعد اِس کی قیمت 65 لاکھ 59 ہزار روپے ہوگئی ہے۔
صرف یہ ہی نہیں، ٹویوٹا رِیوو جی آر ایس کی نئی قیمت 7 لاکھ 90 ہزار روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 35 لاکھ روپے ہوگئی، ٹویوٹا نے اپنی گاڑیوں میں سب سے زیادہ کمی فورچونر جی پیٹرول میں کی ہے جس کی نئی قیمت 13 لاکھ 10 ہزار روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 44 لاکھ 99 ہزار روپے ہوگئی ہے۔ فورچونر وی پیٹرول کی نئی قیمت 11 لاکھ روپے کی کمی کے بعد ایک کروڑ 99 لاکھ روپے ہوگئی جبکہ فورچونر جی آر ایس کی نئی قیمت 11 لاکھ 90 ہزار روپے کی کمی سے ایک کروڑ 89 لاکھ 9 ہزار روپے ہوگئی۔
دوسری جانب اس سے قبل لکی موٹر کارپوریشن (ایل ایم سی) اور ایم جی موٹرز نے بھی پاکستان میں اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا۔
موٹر ڈیلرز کے مطابق مقامی سطح پر تیار ہونیوالی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے بعد ابھی تک مارکیٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے میں وقت لگے گا، نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بہت تیزی سے استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تھا اور چیک اینڈ بیلنس کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک اپنے ریٹ پر گاڑی فروخت کررہا ہے۔
ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی فارمولا موجود نہیں جس سے اس بات کا تعین ہو کہ نئی گاڑی کے ساتھ پرانی گاڑی کے ریٹ کو کم یا زیادہ کیا جاسکے، ہر ایک اپنے حساب سے مارکیٹ میں کام کر رہا ہے۔
کراچی کے ایک شوروم کے مالک نے بھی ایم ایچ شہزاد کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مڈل کلاس صارف کیلئے اس وقت گاڑی خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے، جو چھوٹی گاڑی 660 سی سی، 008 سی سی یا 1000 سی سی کی استعمال شدہ گاڑی کے خریدار تھے وہ اب بھی پریشان ہیں، 10 سے 15 لاکھ روپے کی رینج میں کم چلی ہوئی اچھی گاڑی اب مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1300 اور 0015 سی سی کی 15 سے 20 سال پرانی گاڑیاں اس وقت مارکیٹ میں 8 سے 13 لاکھ روپے میں فروخت ہورہی ہیں، ملک میں شرح سود میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس لئے بینک سے گاڑی لیز پر لینے والوں کی تعداد میں بھی واضح کمی ہوئی ہے۔
شوروممالک نے مزید کہا کہ مارکیٹ میں گاڑیوں کے خریدار معمول سے بہت کم ہوگئے ہیں، پاکستان میں نئی گاڑیاں بنانے والی کمپنیز بھی مسلسل اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں۔
آل پاکستان موٹر امپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنماء محمد کامران کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے جو گاڑیاں پاکستان بھیجی جاتی ہیں ان کی قیمتوں میں ابھی تک کوئی کمی نہیں ہوسکی، ڈالر کے ریٹ کم ہوئے ہیں، امید ہے اس کا اثر مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ درآمدی گاڑیوں پر بھی پڑیگا لیکن اس میں وقت لگے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں صرف بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ہی گاڑی بھیج سکتے ہیں، اووسیز پاکستانی اپنے پیاروں کو گاڑیاں بھیجتے ہیں، ان میں اگر کوئی فروخت کرتا ہے تو ہم پاکستان میں ان سے گاڑی خریدتے ہیں اور گاڑی کی قیمت فروخت کرنیوالے کے حساب سے ادا کی جاتی ہے۔