فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت ہوئی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین سب کیلئے ہے اور اس کا اطلاق سب پر ہوگا۔ درخواستگزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ایف بی علی کیس فیصلے کے وقت آرٹیکل 175 کی شق 3 نہیں تھی، انیسویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہوچکا، 2025ء میں پرانے کورٹ مارشل کا اطلاق فوجی اہلکاروں پر بھی نہیں ہوسکتا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تھی، وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا برا نہ مانیے گا اسی جماعت سے آج کل آپ کی وابستگی ہے، سلمان اکرم راجہ کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، کیس میں فریق 9 مئی کے سزا یافتہ ارزم جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، ایف بی علی کیس فیصلے کے وقت آرٹیکل 175 کی شق 3 نہیں تھی، 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہوچکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2025ء میں 1860ء والے کورٹ مارشل کا اطلاق یونیفارم پرسنل پر بھی نہیں ہوسکتا، بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہوسکتا، آرمی ایکٹ میں کسی بھی ترمیم سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہو سکتے، یہ آئین عوام پاکستان کیلئے ہے، عوام کو سوغات میں نہیں ملا، نہ ہی یہ آئین کسی فیلڈ مارشل نے اپنے لیے بنا رکھا ہے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین سب کیلئے ہے اور اس کا اطلاق سب پر ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 1975ء میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی کا ذکر ہوا، 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کردی، جس کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا، ٹو ون ڈی کی حیثیت کا ہر مرتبہ سپریم کورٹ جوڈیشل ریویو کیوں کرے؟۔
جسٹس نعیم افغان بولے ٹو ون ڈی کیلئے1967 میں آرڈیننس لایا گیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ معیاد ختم ہونے پر آرڈیننس متروک ہوگیا ہو؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مارشل لاء میں بنے قوانین کو آئین کے آرٹیکل 270 میں تحفظ دیا گیا، اللہ نہ کرے آئین میں آرٹیکل 270۔ اے اے اے اے کا اضافہ ہو۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سلمان اکرم راجہ سے کہا ہلکے پھلکے انداز میں بات کر رہا ہوں بُرا نہ مانیے گا، آپ کی ایک جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے، جب اس پارٹی کی حکومت تھی، تب آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوئی اور پارلیمنٹ نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ یہ قانون سازی کی۔
اعتزاز احسن، عزیر بھنڈاری و دیگر وکلاء نے اٹک جیل اور اڈیالہ جیل میں ٹرائل کے دوران تلاشی کا ذکر کیا تو بینچ سربراہ جسٹس امین الدین خان نے روک دیا، کہا اپنے دلائل صرف اسی کیس تک رکھیں۔