پولیس کا بنیادی کام عوام کی حفاظت اور قانون کا نفاذ ہے، لیکن جب پولیس ہی قتل کا ذریعہ بن جائے تو معاشرے میں خوف اور عدم اعتماد کیسے پیدا نہ ہو؟ پولیس کلچر نے عوام میں تحفظ کا احساس ہی ناپید کر دیا ہے لوگ اپنی فریاد لے کر تھانے میں جانے سے کتراتے ہیں او ر اگر کہیں پولیس کا ناکہ لگا ہو تو راہگیر حضرات متبادل راستے کو اپنانے میں ترجیح دیتے ہیں ۔
صنعتی شہر فیصل آباد میں تو پولیس کے ہاتھوں میں ملزمان کا قتل ایک سنگین مسلہ بنتا جا رہا ہے تاندلیانوالہ میں پولیس نے حفاظت کے پیش نظر تین ملزمان بھائیوں کو تھانہ سٹی سے صدر میں منتقل کیا مگر ناقص سکیورٹی حصار کو توڑ کر مسلحہ حملہ آوار تھانے میں داخل ہوئے اور حوالات میں قید تینوں بھائیوں کو فائرنگ کرکےقتل کر دیا ابتدائی تفتیش میں تھانے کا محرر باقاعدہ سارے واقعہ میں ملوث پایا گیا۔ ایک ہفتے کے دوران ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ پیشی پر آنےوالے دو ملزمان کو پولیس حراست میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا اور المیہ یہ ہے کہ حملہ آوار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔
پولیس کی ناقص سکیورٹی کا بوجھ کب تک عوام اٹھائی گے ؟ محکمہ پولیس میں خود احتسابی کا ابتر نظام اس صورتحال کی بنیادی وجہ ہے افسران صرف نوٹس لیتے ہیں اور چند دنوں کے لئے اہلکاروں کو معطل کیا جاتا ہے نہ انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ ان میں کیا خامیاں ہے اور نہ ان خامیوں کو درست کرنے کے لئے کوئی تربیت ، اہلکاروں کے لئے معطل ہونا تو جیسے ایک ہنی مون پیریڈ بن گیا ہے ۔
ایک پولیس ملازم نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کی تاندالیانوالہ حوالات میں تین بھائیوں کا قتل پولیس کی بڑی سکیورٹی کمزوری تھی مگر کچہریوں میں ہونےوالے قتلوں کی پولیس مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ،عدالتوں کی سکیورٹی پولیس کے لئے بھی ایک سنگین مسلہ ہے بخشی خانے سے عدالت تک لانے کے لئے ملزمان کو مین ضلع کونسل روڈ عبور کروا کرلاناپڑتا ہے جہاں ایک طرف ٹریفک کا بہاو تو دوسری جانب ملزمان کے ساتھ اہلخانہ کا ہجوم حملہ آواروں کو موقع فراہم کرتا ہے جیل سے آنےوالے اسٹاف کی ٹریننگ نہ ہونے کے باعث ایسے حملوں کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں اس لئے حملہ آوار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس مسئلے کا جامع حل کے لئےضروری ہے کہ کچہریوں کے سکیورٹی نظام کومکمل طور پر ریو کیا جائے اور اس میں درپیش مسائل کو جدید طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔
قانون دان ظہور عالم اعجاز نے الزام لگایا کہ کچہریوں میں زیر حراست ملزمان کے قتل میں پولیس خود ملوث ہوتی ہے شوٹرز کو پہلے سے ہی آگا کر دیا جاتا ہے جب انہوں نے نشاندہی کی کہ وکلا صاحباں کے ساتھ آنےوالے سائلین بھی ان کی آڑ میں گیٹ پر معمور پولیس اہلکاروں کو تلاشی نہیں دیتے جس سےمشتبہ افراد کو موقع ملتا ہے پے در پے واقعات سے سائلیں کے ساتھ ساتھ وکلا میں بھی خوف ہے اور اس بار کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ وکلا کے علاوہ تلاشی کے بغیر کوئی بھی شخص سیشن کورٹ میں داخل نہ ہو ۔
تھانے ہوں یا کورٹس پولیس سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کے ساتھ ساتھ موثر حکمت عملی اپنانا ضروری ہےخود احتسابی کا مضبوط نظام اور اہلکاروں کی مناسب تربیت سے محکمہ پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔