وزارت توانائی حکام نے موٹرسائیکل اور رکشہ کو کاربن کے اخراج اور آلودگی کی بڑی وجہ قرار دے دیا۔
بدھ کے روز سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں وزارت صنعت و پیداوار حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کے نفاذ کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی کام کر رہی ہے۔
سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال ناگزیر ہے تاکہ کاربن اخراج کم کیا جا سکے، حکومت 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک وہیکلز متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہے۔
حکام نے بتایا کہ 43 فیصد کاربن تیل اور 31 فیصد کوئلے سے خارج ہو رہا ہے، موٹر بائیک اور رکشہ بھی کاربن اخراج اور آلودگی کی بڑی وجہ ہے جبکہ وزارت توانائی نے 2030 تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے مقامی مینوفیکچررز کی تعداد سے متعلق استفسار کیا تو وزارت صنعت و پیداوار حکام نے لاعلمی کا اظہار کیا جس پر کمیٹی نے تیاری نہ کرکے آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
وزارت توانائی حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ قابل تجدید توانائی کے فروغ سے پائیدار توانائی میں بہتری آئے گی۔
اجلاس کے دوران وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ماضی میں پاور پلانٹس مختلف پالیسیوں کے تحت لگائے گئے لیکن اب مسابقتی نظام متعارف کرایا جا رہا ہے، گرین انرجی کی طرف منتقلی کے لیے گرین فنانس کی ضرورت ہوگی جبکہ اب تک 2500 میگاواٹ کے تھرمل پاور پلانٹس ریٹائر کیے جا چکے ہیں۔
اویس لغاری نے کہا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی پر عملدرآمد کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ چارجنگ اسٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے نکل چکی ہے اور این ٹی ڈی سی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور دسمبر میں صنعتوں کو 27 روپے فی یونٹ بجلی دی گئی جبکہ آئندہ تین سال کے لیے اس پیکج پر آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔