قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔ اپوزیشن ارکان نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری بل کثرت رائے سے منظور کرلی، سیکرٹری داخلہ نے دوران بریفنگ کمیٹی کو بتایا کہ سوشل میڈیا سے مواد ہٹانا ایک الگ چیزہے، سزائیں کم یا زیادہ کرنا کمیٹی کا اختیار ہے۔
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ بل پاس ہونا چاہئے مگر اس قانون میں سزائیں زیادہ رکھی ہیں، فیک نیوز سے جھگڑے ہوررہے ہیں اور لوگ قتل ہورہے ہیں، سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ سزائیں کم یا زیادہ کرنا کمیٹی کا اختیار ہے۔
زرتاج گل نے کہا کہ ہنگامی طور پراجلاس بلایا گیا،سیشن بھی جاری ہے، کالے قوانین کےلیے اتنی جلد بازی کیوں کی جارہی ہے؟ پہلے فائر وال لگائی،کام نہ بنا تو یہ بل لے آئے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کا اکاؤنٹ اچھا نہ لگے تو اہلخانہ کو اٹھالیں۔ بل میں سزائیں بہت سخت ہیں،پہلے ہی آدھا ملک جیل میں ہے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جس کا مسودہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرے گی، ڈی آر پی اے کو سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہو گا، اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کی مجاز بھی ہو گی۔ جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ ہوگا
مجوزہ ترامیم میں بتایا گیا ہے کہ جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کیا جائے گا، وفاقی حکومت تین سال کیلئے ٹربیونل ممبران تعینات کرے گی، سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔
مسودے کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکے گی، ٹربیونل فیصلے کو 60 روز کے اندر اپیل سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا، ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔