سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے موجودہ کیسز کا جائزہ لینے کا اشارہ دیدیا۔ جج آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا چاہتے ہیں ملزمان کو دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ اور شواہد کا معیار کیا تھا؟۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔ بینچ نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کر لیں۔
دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا دیکھنا چاہتے ہیں ملزمان کو دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ اور شواہد کا معیار کیا تھا؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے بھی اتفاق کیا کہا جائزے کے اختیار کی حد تک متفق ہوں۔ تمام مقدمات نہیں لیکن ایک کیس کا ریکارڈ دکھایا جاسکتا ہے ۔ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ جائزے کے اختیار کی حد تک متفق ہوں، تمام مقدمات نہیں لیکن ایک کیس کا ریکارڈ دکھایا جاسکتا ہے ، عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہے،اثرانداز نہیں ہونا چاہتے۔
عدالت نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ 9 مئی کے بعد آرمی ایکٹ میں ترمیم ماضی پر کیسے لاگو ہوسکتی ہے؟ ملزمان کا ٹرائل ترمیم شدہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا۔ دو فیصلوں میں فیئر ٹرائل کا بھی ذکر موجود ہے۔
عدالت نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کرلیں، کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں؟مختصر رکھیے گا، ججز کے کوئی سوالات ہوئے تو آخر میں اسے بھی دیکھ لیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا، کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟ عدلیہ مارشل لا کی توثیق کرتی رہی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو عدالت ریکارڈ مانگ لے گی۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہے،اثرانداز نہیں ہونا چاہتے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بینچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں جائزہ لینا ضروری ہے، دیکھنا چاہتے ہیں ملزمان کو دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ فوجی عدالت میں پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔