موسم سرما کے دوران پاکستان میں اکثر مقامات پر درجہ حرارت نقطہ انجماد کے قریب اور بعض حصوں میں نیچے بھی گرجاتا ہے، جبکہ راتیں مزید سرد ہو جاتی ہیں تو جائے رہائش کو گرم رکھے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا اور ایسا ہیٹر کے استعمال سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
خیبرپختونخوا سمیت پاکستان میں سردیوں کے دوران ہیٹر کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور جن علاقوں میں قدرتی گیس دستیاب ہے وہاں گیس سے چلنے والے جبکہ اس قدرتی وسیلے سے محروم شہروں اور دیہاتوں میں بجلی کے ہیٹروں کی مانگ زیادہ رہتی ہے۔
ملک کے شمالی علاقوں میں جہاں برفباری ہوتی ہے وہاں کوئلے یا لکڑیوں کو جلاکر بھی گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔
ہیٹروں کے زیادہ استعمال کے باعث صارفین بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے کی شکایات بھی کرتے ہیں جبکہ گیس کو نسبتاً قابل برداشت قرار دیا جاتا ہے۔
حکومت صارفین کی گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والے ہیٹروں کے استعمال کیلئے حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کی وجہ موسم سرما میں بجلی کی کھپت کا کم ہونا ہے۔
دیکھنا ہے کہ گیس اور بجلی کے ہیٹر میں سے کون سا صارف کیلئے زیادہ خرچ کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں گیس بل کا حساب کتاب لگانا ایک پیچیدہ عمل ہے اور گیس کا بل مکعب میٹر یا ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) میں نکالا جاتا ہے۔
صارفین کو بھیجے جانے والے گیس کے بلوں میں یہی اکائیاں یعنی مکعب کیوبک میٹر اور برٹش تھرمل یونٹ ( بی ٹی یو) کے اعداد و شمار نظر آئیں گے۔
کیوبک میٹر کو ایک فارمولے کےتحت برٹش تھرمل یونٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر گیس بل بنایا جاتا ہے، پاکستان میں فی بی ٹی یو کی قیمت 200 سے 4000 روپے ہے۔
رپورٹ کے مطابق 25 کیوبک میٹر گیس استعمال ہونے کی صورت میں فی بی ٹی یو کی قیمت 200 روپے ہوتی ہے جبکہ 100 یونٹس کی صورت یہ نرخ بڑھ کر 1200 روپے فی بی ٹی یو تک پہنچ جاتی ہے۔
گیس صارفین کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ کیٹیگری۔ پہلی کیٹیگری میں وہ صارفین شامل ہیں جن کے گیس کا استعمال نومبر سے فروری (یعنی سردیوں کے دوران) ماہانہ 90 یونٹس سے کم ہوں۔
اسی طرح نان پروٹیکٹڈ صارفین کے گیس بل سردیوں کے چار مہینوں میں ماہانہ 90 یونٹس سے زیادہ ہوتے ہیں اور یوں ان کا بل دوسرے گروہ پروٹیکٹڈ کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ رہتا ہے۔
2.4 کلو واٹ گیس ہیٹر کا خرچہ فارمولے کے مطابق فی گھنٹہ 0.00116 بی ٹی یو بنتا ہے اور اس کا ایک گھنٹے کا خرچ تقریباً 5 سے 10 روپے ہوگا۔
یہی ہیٹر دن میں 8 گھنٹے چلانے کی صورت میں اس کا ایک دن کا خرچ تقریباً 80 روپے اور ماہانہ بل 2400 روپے بنے گا، لیکن اس میں ٹیکسز وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
اسی طرح 2.4 کلو واٹ کیپیسٹی والے بجلی کے ہیٹر کا خرچہ نکالتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریباً 25 سے 30 روپے ہے اور 2.4 کلو واٹ ہیٹر ایک گھنٹے میں 2.4 بجلی یونٹ صرف کریگا جس کا بل 72 روپے بنے گا۔
روزانہ آٹھ گھنٹے چلانے سے بل 576 روپے اور روزانہ آٹھ گھنٹوں کے استعمال کے بعد ماہانہ خرچ (ٹیکسز کے علاوہ) تقریباً 17000 روپے بنے گا۔
ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بجلی کے ہیٹر کے مقابلے میں گیس ہیٹر کا خرچ کم رہتا ہے تاہم اگر دور جدید کے تقاضوں کے مطابق انورٹر بجلی ہیٹر یا کلائیمیٹ کنٹرول فیچر والے ہیٹر سے یہ خرچہ کم ہوسکتا ہے۔