جسٹس منصور علی شاہ نے جج تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کردی۔ کہا انٹیلجنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کے نام نیا خط 9 صفحات پر مشتمل ہے ۔ آغاز میں چھبیسویں ترمیم کا جائزہ لینے کیلئے فل کورٹ کا مطالبہ دہرایا۔ پھر لکھا رولز بنانے والی کمیٹی نے جو ڈرافٹ تیار کیا اس پر اپنی رائے دے رہا ہوں۔ آئینی بینچ میں ججوں کی شمولیت کا معیار اور پیمانہ طے ہونا چاہیے۔
خط کے متن کے مطابق کمیشن معیار طے کئے بغیر ہی سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دے چکا ۔ میری نظر میں معیار یہ ہو سکتا ہےکہ کس جج نےآئینی تشریح والےکتنے فیصلے تحریر کر رکھے ہیں۔
طویل خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججز تعیناتی قواعد کے مسودے میں شامل ہر ایک رول پر الگ الگ رائے دی ۔ لکھا کہ ایک جج آئین کی حفاظت اور اس کے دفاع کا حلف لیتا ہے، رولز میں اس کی عکاسی ہونی چاہیے۔
ججز تعیناتی میں انٹیلجنس ایجنسیوں سے رپورٹ نہ لی جائے ۔ ذاتی معلومات پر انحصار کرنا چاہئے۔ ایجنسیوں کو کوئی بھی کردار دیا گیا تو اس کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹو ممبران کی اکثریت ہے ۔
خط میں مزید کہا گیا ہےکہ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لانے والے ججز سے متعلق قواعد میں قابلیت کا پیمانہ واضح ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں ڈائریکٹ جج لگانےکا اصول بھی طے کرنا ضروری ہے۔ جج بنائے جانے والے وکیل سے یہ معلومات بھی لی جائیں کہ کتنے فیصلوں میں اس نے خود آزادانہ طور پر دلائل دیئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تجاویز کو 26 ویں ترمیم کے عدالتی جائزے کے بعد موجودہ جوڈیشل کمیشن کی آئینی حیثیت طے پانے سے مشروط کیا ہے۔