سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عمل درآمد بینچز بنانے پر سوالات اٹھا دیئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا قانون میں عمل درآمد بینچ کا کوئی تصور ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد بینچ بن سکتا ہے؟ کیا ججز ساتھی ججز کو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں؟ بینچ فیصلے پر عمل نہ کراسکے تو کیا ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کو کوئی حکم دے سکتا ہے؟
وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ کیس میں فیصلے کی تعمیل کے لیے عملدرآمد بینچ بنایا گیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا قانون میں عملدرآمد بینچ کا کوئی تصور ہے؟ جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ قانون میں تو عملدرآمد بینچ بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا فاروق نائیک صاحب، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد بینچ بن سکتا ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ عملدرآمد بینچ کا قانون میں کوئی جواز یا حوالہ نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں کہ کیا عملدرآمد بینچز بنائے جاسکتے ہیں؟ کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کو کوئی حکم دے سکتا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عملدرآمد بینچز کا تصور بھارتی پریکٹس سے اخذ کیا گیا ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بھارتی حوالے نہ دیں پاکستان کا بتائیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کئی بار عملدرآمد بینچز بنتے رہے ہیں۔